تفہیم المسائل
مفتی منیب الرحمن
سوال: میلاد شریف کے جلسوں میں دف کا اہتمام کیا جانا اور جشنِ میلاد شریف کے جلسوں میں تالیاں بجانا، ڈھول اور رقص پر اصرار کیا جانا، شریعتِ مطہرہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے، کیا کہیں کوئی جواز کی صورت ہے یادودھ وشہد میں نجاست وپلیدی ڈالنا اور حلال کو حرام کرنا ہے؟ دَف والی حدیث کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے اس حدیث کی روشنی میں مباح سمجھا جائے یا حدیث کو منسوخ سمجھا جائے یا پھر خصوصیت پر محمول کیا جائے؟ بعض حضرات صوفیہ کے سازوں کے ساتھ قوالی سننے کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ (تنظیمات اہل السنت والجماعت، سرگودھا)
جواب: میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے جلسوں اور جلوس کا محرمات، مکروہات سے پاک ہونا ہی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے حقیقی محبت کا ثبوت ہے کہ آپ کی بعثتِ مبارکہ کا مقصد ظلمت وجہالت کو دو رکرنا اور احکامِ الٰہی کا پابند بنانا ہے، لوگوں کی رذیل صفات کو حسنِ اخلاق میں بدل دینا ہے۔ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دن کا اکرام انھی شرعی تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم او ر صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی مجالس میں نظر آتے ہیں اس سے ہٹ کر کسی غیر شرعی امر کا ارتکاب دعویٔ عشق و محبت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔ میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے جلوس نہ ضروریاتِ دین سے ہیں اور نہ ہی ضروریاتِ مسلک اہل السنت والجماعت سے البتہ یہ برصغیر میں شعائرِ اہل سنت سے ہیں، یہ اگر محرمات ، بدعات اور منکرات سے پاک ہوں تو زیادہ سے زیادہ استحباب واستحسان کے درجے میں قرار دیا جاسکتا ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے، ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک (کامل) مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہش میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو جائے (شرح السنۃ للبغوی) حدیث کا واضح مفہوم یہی ہے کہ کامل ایمان کی علامت یہ ہے کہ انسان کا ہر قول و فعل ،معاملات ومعمولات اور خواہشات رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق ہونی چاہئیں۔ ہماراا لمیہ یہ ہے کہ ہم نے دینی امور کو قرآن وسنت میں بیان کردہ حقائق کی روشنی میں طے کرنے کے بجائے اپنی وضع کردہ عقیدتوں اور خواہشات کی نذر کردیتے ہیں اور عقیدے وعقیدت کا تعین ایک ایسا طبقہ کرتا ہے جو دینی فہم سے عاری و نا بلد ہے ۔ محافلِ میلاد کے نام پر مقدس محافل کی آڑ میں بڑے بڑے کاروبار کیے جارہے ہیں بعض مقامات پر نعت خوانوں اور شعلہ بیان مقررین (جن کی اکثریت موضوع روایات کا سہارا لیتی ہے) کی ایجنٹوں کے ذریعے لاکھوں میں بکنگ ہورہی ہے، کسی زمانے میں شہر بھر میں سیاسی لیڈروں کی بڑی بڑی قد آور تصاویر لگائی جاتی تھیں، اب واعظین اور نعت خواں حضرات کی تصاویر صرف بازاروں اور چوراہوں تک محدود نہیں، بلکہ مساجد کے صدر دروازوں پر بھی آویزاں نظر آتی ہیں۔ انگلینڈ سے فون آیا کہ اب پیر صاحبان کی تصاویر مساجد کے اندر آویزاں کی جارہی ہیں۔ ہمیں حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک باریش پیر کو جبے قبے کے ساتھ غیر محرم جوان عورتوں کے ساتھ بلاحجاب رقص کرتے ہوئے دکھایا، وہ ان کے ہاتھ پکڑے ہوئے نظر آتے ہیں کبھی وہ انھیں بوسہ دیتی ہیں، یہ حرام ہے۔ جب ابتذال اس حد تک پہنچ جائے تو علمائے کرام کو تمام مصلحتوں سے بالاتر ہو کر شدت کے ساتھ اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ کفار بیت اﷲ شریف کے پاس تالیاں بجاتے اور اسے عبادت شمار کرتے تھے، قرآن مجید میں اسے کفر قرار دیا گیا ہے، اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے : ترجمہ:’’اور بیت اﷲ کے پاس ان کی نماز اس کے سوا کیا تھی کہ یہ سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے، سواب عذاب کو چکھو کہ کیونکہ تم کفر کرتے تھے(الانفال:۳۵)
علامہ ابوعبداﷲ محمد بن احمد قرطبی لکھتے ہیں : قرآن مجید نے سیٹیاں بجانے اور تالیاں پٹینے کی جو مذمت کی ہے اس میں ان جاہل صوفیاء کا رد ہے، جو رقص کرتے ہیں ، تالیاں پیٹتے اور بے ہوش ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں (جسے وَجد نہیں بلکہ تواجُد سے تعبیر کیا گیا ہے) (الجامع لاحکام القرآن ، جزء ۷، ص:۳۵۹، بیروت) شریعت مطہرہ میں تالیاں بجانے کو مکروہ عمل فرمایا ہے، علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں :’’(ہر بیہودہ کھیل مکروہ ہے) یعنی ہر لہو ولعب اور عبث (بے مقصدکام) تینوں (یعنی لہو، لعب او رعبث) کے معنی ایک ہیں جیسا کہ ’’شرح التاویلات‘‘ میں ہے ۔ لہو کو مطلق (یعنی کسی قید کے بغیر) ذکر کرنا نفسِ فعل اور اس کی توجہ سے سماعت کو شامل ہے، جیسے رقص کرنا، مذاق کرنا اور تالیاں بجانا، ڈھول بجانا، ستار بجانا، سارنگی بجانا، چنگ بجانا، قانون (ایک تار والا باجا) بجانا، مزامیر کا استعمال ، جھانجھ (مجیرا) بجانا اور بگل بجانا، یہ سب مکروہ ہیں کیونکہ یہ عاداتِ کفار ہیں۔ (روالمختار علی الدرالمختار، جلد:۹، ص:۴۸۱)
گانے کی دھن پر بنائی گئی موسیقی اور آلاتِ موسیقی کے ساتھ نعت پڑھنا، پڑھوانا اور سننا سب ناجائز ہے، علامہ علی قاری علیہ الرحمۃ البار ی لکھتے ہیں: ’’جس نے دَف اور ڈانڈیا کے ساتھ قرآن کی تلاوت کی (وہ توہین قرآن کی وجہ سے) کفر کا مرتکب ہوا، میں (ملاعلی قاری) کہتا ہوں : اسی حکم کے قریب دَف اور ڈانڈیا کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا ذکر یا نعت مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم پڑھنا بھی ہے۔ (الفقہ الاکبر) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ مکمل ضابطہ اور دستور ہے ، احادیثِ مبارکہ میں صرف چند مواقع ایسے ملتے ہیں، جہاں دَف بجائی جارہی تھی، آپ نے ان مواقع پر کسی خاص سبب سے اعراض نہ کیا۔ لیکن آج تسکینِ نفس کی تکمیل کے لیے ہر شخص اسے سنت سے ثابت کرنے پر تلا رہتا ہے، جبکہ حدیث پاک میں ہے :یعنی مجھے آلاتِ موسیقی کو توڑنے والا بنا کر بھیجا گیا‘‘ کے کلمات بھی آئے ہیں۔ (کنزالعمال) حضرت بریدہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ایک معرکہ سے واپس لوٹے تو ایک سیاہ رنگ کی بچی آکر کہنے لگی: ’’یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میں نے نذرمانی تھی کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو صحیح سلامت لوٹادے تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں گی اور اشعار گاؤں گی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تو نے نذرمانی تھی تو ،تو پھر دَف بجالے ورنہ نہیں۔ وہ لڑکی دَف بجانے لگی، اس اثناء میں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ تشریف لائے ، وہ دف بجاتی رہی، پھر حضرت علی رضی اﷲ عنہ تشریف لائے، وہ دف بجاتی رہی ، پھر حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ تشریف لائے، وہ تب بھی دف بجاتی رہی۔ پھر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ داخل ہوئے تو وہ دف کو اپنے سرین کے نیچے چھپا کر اس پر بیٹھ گئی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں : اے عمر (رضی اﷲ عنہ)! تم سے شیطان ڈرتا ہے، میں بیٹھا تھا یہ دف بجاتی رہی، پھر ابوبکر (رضی اﷲ عنہ) آئے یہ دف بجاتی رہی ، پھر علی (رضی اﷲ عنہ) آئے یہ دف بجاتی رہی ،پھر عثمان (رضی اﷲ عنہ) آئے یہ دف بجاتی رہیاور پھر اے عمر (رضی اﷲ عنہ)! جب تم آئے تو اس نے دف رکھ دی۔ (سنن ترمذی)
امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز لکھتے ہیں:’’دف کہ بے جلاجل یعنی بغیرجھانجھ (اسے جھانجر بھی کہتے ہیں) کا ہو اور تال سم کی رعایت سے نہ بجایا جائے اور بجانے والے نہ مرد ہوں نہ ذی عزت عورتیں، بلکہ کنیزیں یا ایسی کم حیثیت عورتیں اور وہ غیر محل فتنہ میں بجائی تو نہ صرف جائز بلکہ مستحب ومندوب ہے: ترجمہ: ’’حدیث میں مشروط دف کے بجانے کاحکم دیا گیا ہے اورا س کی تمام قیود کو فتاویٰ شامی وغیرہ میں ذکر کردیا گیا اور ہم نے اپنے فتاویٰ میں اس کی تشریح کردی ہے‘‘۔ اس کے سوا ور باجوں سے احتراز کیا جائے ، واﷲ تعالیٰ اعلم۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد:۲۱)
دَف اور ڈھولک میں فرق ہے،دف ایک طرف سے کھلا ہوتا ہے، جبکہ ڈھولک دونوں طرف سے بند ہوتا ہے لہٰذا دَف سے ڈھولک کا جواز ثابت نہیں کیا جاسکتا اور امام احمد رضا قادری نے دف کے ساتھ بھی جھانجھر نہ ہونے کی شرط لگائی ہے ، جبکہ بعض لوگ جھانجھر والے دف کے ساتھ نوخیز قریب البلوغ یا بالغہ لڑکیوں سے ٹی وی پر گروپ کی شکل میں نعت پڑھواتے ہیں ، یہ درست نہیں ہے۔ بعض لوگ ہجرت کے موقع پر قبیلہ بنو نجار کی بچیوں کے ان استقبالیہ اشعار سے استدلال کرتے ہیں: طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاع وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَادَعَالِلّٰہِ دَاعٍ۔ (سیرۃ الحلبیہ:۲۳۵؍۲) یہکَلِمَۃُ الْحَقّ أرِیْدُ بِھَا الْبَاطِلْ‘‘ کے قبیل سے ہے۔ اوّلاً تو یہ کہ یہ ابتدائے اسلام کا دور تھا یہ بچیاں عہدِاسلام کی تربیت یافتہ نہیں تھیں، بلکہ اس عہد کے قبائلی رواج کے مطابق انھوں نے ایسا کیا اور وہ بھی ایک دائرے میں تھا جبکہ مزامیر کو توڑنے کی روایات بعد کی ہیں ۔ بعدازاں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جنگی فتوحات سے واپس تشریف لائے، کئی خوشی کے مواقع آئے، لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس شعار کو رائج نہیں کی اور نہ ہی اس کی ترغیب دی۔ مغنیات سے کام لینا مشرکین مکہ کا شعار تھا۔
(مطبوعہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘۲۵؍دستمبر۲۰۱۵)