مسنون اعمال اور غلطیوں کی اصلاح
ایک اچھے مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ کسی بھی کام بالخصوص مذہبی کام سے پہلے اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرتا ہے اور پھر اس کام کو پوری بصیرت کے ساتھ انجام دیتا ہے ۔ماہ شعبان کی آمد آمد ہے ۔ذیل میں ماہ شعبان کے حوالے سے دو قسم کی معلومات ذکر کی جارہی ہیں :
1)ماہ شعبان کے مسنون اعمال
2)ماہ شعبان میں سنت سمجھ کر انجام دیے جانے والے اعمال جو حقیقت میں سنت نہیں ۔
مقصد یہ ہے کہ ماہ شعبان کی مبارک ساعات میں مسنون اعمال کو اپنا کران کا اجر وثواب بھر پور طریقے سے سمیٹا جائے ، جبکہ خلاف سنت باتوں کو بصیرت کے ساتھ سمجھ کر ان سے مکمل پر ہیز برتا جائے ۔ اللہ تعالیٰ توفیق عمل نصیب فرمائے ! ( آمین )
چاند دیکھنے کا خاص اہتمام :
ماہ شعبان کا چاند دیکھنے کا خاص اہتمام مسنون ہے ، نبی پاک ﷺ شعبان کا چاند دیکھنے کا خصوصی اہتما م فماتے تھے ۔ ( ترمذی ، ابو داؤد )
ماہ شعبان کے سنت روزے :
یکم شعبان سے پندرہ شعبان تک ہر دن کا روزہ احادیث سے ثابت ہے ۔ پندرہویں شعبان کے روزے کی الگ سے خصوصی فضیلت بھی حدیث سے ثابت ہے ۔ یہ حدیث سند کےا عتبار سے اگرچہ کمزور ہے لیکن علماء ومحدثین کے اصولوں کے مطابق یہ ضعف ایسا نہیں کہ اس پر عمل کی کوئی خاص فضیلت نہ ہو۔ چنانچہ اکثر فقہاء محدثین نے خاص پندرہ شعبان کے روزے کو مستحب قرار دیا ہے ۔اس کے بعد سولہ شعبان سے ستائیس شعبان تک روزہ نہ رکھنا عام امت کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ جبکہ اٹھائیس سے آخر شعبان تک کا روزہ ممنوع ہے۔ (ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ )
عبادت کی رات :
لیلۃ البراء یعنی پندرہ شعبان کی رات ، عبادت اور خیر وبرکت کی رات ہے۔ اس رات کو نوافل ، ذکر ، تلاوت ، درود شریف کی کثرت اور دعاؤں سے قیمتی بنانا چاہیے ۔ لیکن عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ پہلی رکعت میں فلاں سورۃ پڑھنا ضروری ہو۔ یہ بات بھی یادرہے کہ آپ ﷺ نے اس رات عبادت کا جو خاص اہتمام کیا وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ مبارکہ میں کیا۔ مسجد میں نہیں ۔ نیز آپ ﷺ نے یہ عبادات انفرادی طور پر ادا کیں ۔ اجتماعی طور پر نہیں ۔ ( اسی وجہ سے تو فقہ حنفی میں نوافل کے لیے اجتماع کا اہتمام مکروہ ہے ) اس لیے ہمیں چاہیے کہ آقائے نامدار ﷺ کی سنت کی درست اتباع کرتے ہوئے ہم بھی اس رات کی عبادت گھروں میں انجام دیں ۔ مسجدوں میں جمع ہونے کا خصوصی اہتما م نہ کریں اور نوافل بھی انفرادی طور پر پڑھیں اجتماعی نوافل پڑھنے سے بچیں !
قبرستان جانا:
پندرہ شعبان کی رات قبرستان جانا نبی کریم ﷺ سے ایک بار ہی ثابت ہے ۔ آپ ﷺ کا سالانہ عمل نہیں ، اس لیے زیادہ سے زیادہ اس رات قبرستان جانا مستحب ہے ۔ سنت موکدہ،واجب یا فرض نہیں اور فقہ حنفی کا اصول ہے کہ جب مستحب عمل کو لوگ واجب کا درجہ دینے لگیں جس کی علامت یہ ہے کہ مستحب چھوڑنے والے کو لعن وملامت کا ہدف بنایا جانے لگے تو وہ عمل بجائے مستحب کے مکروہ ہوجاتا ہے ۔ اس لیے شریعت نے قبرستان جانے کو جو درجہ دیا ہے اس سے تجاوز درست نہیں۔
آتش بازی :
آتش بازی اور بم پھوڑنے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہ ہندوؤں کی نقالی ہے اور صحابہ دشمن عناصر کی ایجاد ہے۔ فضول خرچی ، ایذاء رسانی ،عبادت میں مشغول لوگوں کی عبادت میں دخل اندازی اور جان ومال کو خطرہ میں ڈالنے جیسے گناہ اس کے علاوہ ہیں۔ لہذا اس متعدی گناہ سے خود بھی بچیں اور اپنے ماتحتوں کو بھی دور رہنے کی تلقین کریں ! حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ آتش بازی پر سخت قانونی پابندی لگائے ۔
صلاۃ التسبیح کی جماعت :
جماعت سے نوافل پڑھنا فقہ حنفی میں مکروہ تحریمی ہے ۔ یعنی ثواب کی بجائے سخت گناہ ہے ۔ صلوۃ التسبیح نفلی نماز ہے ۔ ہر مرد وعورت جب چاہے اکیلے یہ نماز پڑھ سکتا ہے ۔ لیکن اس کی جماعت مکروہ ہے۔
خواتین کی جماعت :
فرض نمازوں میں عورتوں کے لیے اپنی جماعت کرنا یا مسجد کی جماعت میں شریک ہونا مکروہ تحریمی اور سخت گناہ ہے ۔ جب فرض نماز کے لیے عورتوں کی جماعت درست نہیں تو صلوۃ التسبیح کی جماعت عورتوں کے لیے کیسے درست ہوسکتی ہے؟ یہ کئی گناہوں کا مجموعہ ہے ۔
خواتین کا قبرستان جانا: خواتین کا قبرستان جانا جائز نہیں۔ علامہ احمد رضا خان بریلوی نے فتاویٰ رضویہ میں عورتوں کے قبرستان اور مزارات جانے کو باعث لعنت قرار دیا ہے ۔
چراغاں ، ہندوؤں کی نقل : مساجد اور قبرستانوں میں ضرورت سے زائد چراغاں کرنا درست نہیں، یہ ہندوؤں کی دیوالی کی مشابہت بھی ہے اور اسراف بھی ۔ ملا علی قاری ، شیخ عبدالقادر محدث دہلوی اور دیگر اہل سنت علماء رحمھم اللہ نے اس رات چراغاں کرنے کو ناجائز اور خلاف سنت قرار دیا ہے۔
قوالی کا اجتماع :
علامہ احمد رضا خان بریلوی نے مزارات پر قوالی اور موسیقی کے اجتماعات کو ناجائز اور باعث گناہ قرار دیا ہے ۔