معاملات میں دل کس طرح صاف رکھا جائے

سوال:السلام علیکم!

ہم سے کسی کو تکلیف پہنچی ہم نے معافی مانگ لی سامنے والا کہے کہ معاف تو کردیا لیکن میرا دل تم سے دکھی ہے۔

یا پھر عموما تعلقات میں ایک دوسرے سے لغزشیں ہوتی ہی ہیں ہم ایک دوسرے سے معافی تلافی کر بھی لیتے ہیں لیکن جب دوبارہ کوئی بات ہوتی ہے تو پھر سے پہلی باتیں یاد آتی ہیں۔

اس طرح کے معاملات میں کیا صورت ہو کہ دل صاف ہوجائے اور کیا حقوق العباد کا مطالبہ پھر بھی ہوگا؟

جواب: وعلیکم السلام ورحمہ اللہ وبرکاتہ!

جب بندہ اپنی غلطی کی معافی مانگ لے تو وہ اپنی غلطی سے بری ہوگیا،اب معاف کرنے والے کو چاہیے کہ وہ بھی معاف کردے۔خود اللہ رب العزت کی صفات میں سے ایک صفت عفو بھی ہے۔یعنی مجرم،خطاکار،اور سزا و عذاب کے مستحق کو معاف کرنے والا۔ تمام انبیاء بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم،اللہ تعالی کی صفت عفو کا نمونہ اور آئینہ دار تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی اس دعوے کی سب سے روشن دلیل ہے کہ رسول اللہ نے اپنے دشمنوں کو کس طرح دل وجان سے معاف فرمایا، بلکہ اپنے سینے سے لگایا اور ان کےلیے دعائیں بھی کیں،حالانکہ دشمن مکمل طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دسترس میں تھے۔ بدلہ لینے پر قدرت کے باوجود معاف کردینا باعث اجر اور ثواب کا کام ہے۔

باقی معاملات کس طرح صاف رکھے جائیں،اس کےلیے خود اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں مؤمنین کی دعا کا ذکر فرمایا:

”والذین جآءو من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولاتجعل فی قلوبنا غلاً للذین امنو ربنا انک رءوف رحیم“.

(سورة الحشر:آیت،١٠)

ترجمہ

”اور ان لوگوں کےلیے جو ان کے بعد آئے وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب بخش دے ہم کو اور ان لوگوں کو جو ہمارے بھائی ایمان کے ساتھ ہم سے پہلے گزر گئے اور مت کردے ہمارے دلوں میں کوئی کھوٹ ایمان والوں کےلیے، اے ہمارے رب بے شک آپ رؤف ہیں رحیم ہیں۔“

آیت مبارکہ میں مؤمنین کی دعاؤں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔پہلی دعا میں مؤمنین اپنے لیے بھی اور جو مؤمنین گزر چکے ہیں ان کے لیے بھی مغفرت کی دعا کرتے ہیں، جبکہ دوسری دعا میں وہ یہ دعا کرتے ہیں کہ ” اے اللہ! ہمارے دلوں میں ایمان والوں کےلیے کوئی کھوٹ پیدا نہ فرما“۔

لفظ ”غل“ جس کا ترجمہ کھوٹ کیا گیا ہے بہت عام ہے، کینہ، بغض،حسد،جلن۔ یہ لفظ ان سب باتوں کو شامل ہے۔ اس میں {الذین امنوا} فرمایا ہے یعنی جو بھی اہل ایمان گزر گئے، دنیا سے جا چکے اور جو موجود ہیں اور جو آئندہ آئیں گے، اللہ تعالی ان سب کی طرف ہمارے دلوں کو صاف اور پاک رکھے کسی سے کینہ نہ ہو اور نہ کسی کی طرف سے دل میں برائی لائی جائے۔

اس دعا کا کثرت سے اہتمام کیا جائے۔ان شاءاللہ! دعا کی برکت سے اللہ پاک آپس کی کدورتیں دور فرمادیں گے۔باقی رہی کوئی بات دل میں رہ جائے تو صبر و تحمل اور برداشت کی عادت ڈالی جائے،اس سے معاشرے میں بھی اور آپس میں بھی امن و سکون کی فضا قائم ہوگی۔

معافی نہ ہونے کی صورت میں ظالم کے حسنات مظلوم کو دلوائے جائیں گے اور اگر وہ کافی نہ ہوئے تو مظلوم کے گناہ ظالم پر ڈالے جائیں گے۔

====================

حوالہ جات

(1)۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

”ان تبدوا خیراً او تخفوہ او تعفوا عن سوء فان الله کان عفواً قدیراً“.

(سورة النساء:١٤٩)

ترجمہ: اگر تم کوئی بھلائی ظاہر کرو یا چھپ کر کرو یا کسی کی برائی سے درگزر کرو تو بے شک اللہ معاف کرنے والا قدرت والا ہے۔

2۔”ولمن صبر وغفر ان ذلک لمن عزم الامور“.

(سورة الشوری:٤٣)

ترجمہ:

اور بے شک جس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو یہ ضرور ہمت والے کاموں میں سے ہے۔

3۔قال اللہ تعالی:”والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس“.

(سورة آل عمران:آیت،١٣٤)

ترجمہ:

”اللہ تعالی کا ارشاد ہے:اور جو غصہ پینے والے ہیں اور لوگوں ( کی خطاؤں) کو معاف کرنے والے ہیں“۔

4۔ابن ماجہ کی روایت ہے:

” من اعتذر الی اخیه بمعذرة فلم یقبلھا کان علیه مثل خطیئة صاحب مکس“

(ابن ماجہ:رقم،٣٧١٨)

ترجمہ:

”جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے اپنے کسی قصور پر عذر خواہی کرے اور وہ مسلمان شخص اس کے عذر کو قبول نہ کرے تو اس پر ٹیکس وصول کرنے والے کے مثل گناہ ہوگا۔“

(5)۔عن عبدالله بن مسعود رضی الله عنه قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم:”لایبلغنی احد من احد من اصحاب شیئا فانی احب ان اخرج الیھم وانا سلیم الصدر۔۔۔الخ“.

(جامع الترمذی:فی فضل ازواج النبی صلی الله علیه وسلم، ٧٠٩/٢)

ترجمہ:

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کہ کوئی شخص میرے صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم سے متعلق کوئی بات مجھے نہ پہنچائے (جس سے دل برا ہو)، کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ (اپنے گھر سے) ان کی طرف اس حال میں نکل کر آؤں کہ میرا سینہ باسلامت ہو“۔

(6)۔مافی”القرآن الکریم“: یاایھا الذین امنوا استعینوا بالصبر والصلوة۔ [سورة البقرة:١٥٣]

ترجمہ:اے ایمان والو!نماز اور صبر کے ذریعے مدد حاصل کرو۔

(7)۔مافی” التفسیر السمرقند“ یقول۔۔۔۔ استعینوا بالصبر علی ماانتم علیه وان اصابکم مکروہ۔[١٦٨/١،سورة البقرة]

(8)۔مافی”مسند احمد“:عن معاذ انه قال:یارسول اللہ! اوصنی،قال: اتق اللہ حیثما کنت۔ او:اینما کنت،قال:زدنی،قال:اتبع السیئة الحسنة تمحھا، قال: زدنی،قال: خالق الناس بخلق حسن۔

(٢٣٦/٥،حدیث:٢٢١١٢،ط:مؤسسة قرطبة۔القاھرة)

ترجمہ:

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے نبی ﷺ سے عرض کی کہ یارسول اللہ: مجھے نصیحت کیجیے۔،فرمایا: ’’تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اور نصیحت کیجیے، فرمایا (اگر کوئی گناہ ہو جائے تو) گناہ کے بعد نیکی کرلیا کرو جو اس کو مٹا دے گی۔معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اور ارشاد فرمائیے،فرمایا لوگوں سے حُسنِ اخلاق سے پیش آیا کرو‘‘۔

(9)”فان کانت (المعصیة) تتعلق بآدمی لزم رد الظلامة الی صاحبھا او وارثه او تحصیل البراءة منه“.

(روح المعانی:سورہ التحریم، تحت تفسیر الایة:٨،مکتبة زکریا دیوبند،٢٣٣/١٥)

فقط واللہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں