کچھ لوگ صرف وقت گزارنےکےلیے تاش یا لڈو کھیلتے ہیں جس میں کوئی شرط یا جو انہیں لگاتے صرف خالی کھیلتے ہیں تو کیا خالی بغیر کسی شرط کے تاش یا لڈو کھیلنا کیساہے آپ کیافرماتے ہیں ؟
الجواب حامداومصلیا ً
تفریح طبع کے لیے لڈواس شرط کے ساتھ کھیل سکتے ہیں کہ اس میں خلاف شرع باتوں کا ارتکاب نہ ہو مثلا نمازیں نہ چھوڑی جائیں اور دیگر حقوق اللہ اورحقوق العباد اور فرائض وواجبات میں خلل میں نہ آئے اور کسی گناہ کا ارتکاب بھی اس میں نہ ہو لیکن عام طور پر اس قسم کے کھیلوں میں انہماک اس قدر ہوجاتا ہے جس سےا مور بالا میں غفلت اور کوتاہی ہوہی جاتی ہے ۔ا س لیے اجتناب بہتر ہے،ا ور لڈو کا وقت گزاری کے لیے کھیلنا نامناسب ہے اور وقت کی قیمتی دولت کو ایسی جگہ لگانا چاہیے کہ جس میں دینی یا کم از کم دنیاوی فائدہ ہو۔
نیزتاش کھیلنا بہت ہی برا ہے ا سکھیل کو فقہاء بھی منع کرتے ہیں کیونکہ اس میں کئی مفاسد ہیں جس میں سے چند یہ ہیں ۔
1۔ اس میں تصاویر ہو اکرتی ہیں ۔
2۔ جوا بھی کھیلا جاتاہے ۔2۔جوا بھی کھیلا جاتا ہے ۔3۔فساق اور فجار کا معمول ہے ۔
4۔ اس میں انہماک بھی غیر معمولی ہوتاہے جس سے دیگر حقوق اللہ اور حقوق العباد متاثر ہوتے ہیں ۔
5۔تفریح کے بجائے ذہنی تھکان اور بوجھ کا سبب ہوتاہے ۔
6۔اور اس کھیل کا کوئی صحیح مقصد بھی نہیں ہے ۔
الھدایۃ ۔ ( 4/96)
ویکرہ اللعب بالشطرنج والنرد والاربعۃ عشر وکل لھو لانہ ان قامر بھا فالمیسر حرام بالنص وھو اسم لکل قمار وان لم یقامر بھا فھو عبث ولھو وقال علیہ الصلاۃ والسلام لھو المؤمن باطل الا الثلاث تادیبہ لفرسہ عن قوسہ وملا عبتہ مع اھلہ وقال بعض الناس یباح اللعب بالشطرنج لما فیہ من تشحیذ الخواطر وتذکیۃ الافہام وھو محکی عن الشافعی رحمۃ اللہ لنا قولہ علیہ الصلاۃ والسلام من لعب بالشطرنج والنردشیر فکانما غمس یدہ فی دم الخنزیر ولانہ نوع لعب یصد عن ذکر اللہ وعن الجمع والجماعات فیکون حراما لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام ما الھاک عن ذکر اللہ فھو میسر ثم ان قامر بہ تسقط عدالتہ وان لم یقامر لا تسقط لانہ متاول فیہ ۔
الدرا لمختار۔ ( 6/394)
(و) کرہ تحریما ( اللعب بالنرد و) ( الشطرنج ) بکسر اولہ ویھمل ولا یفتح الا نادرا واباحہ الشافعی وابو یوسف فی روایۃ ونظمھا شارح الوھبانیۃ فقال ولا باس بالشطرنج وھی روایۃ عن الحیر قاضی الشرق والغرب تؤثر وھذا اذا لم یقامر ولم یداوم ولم یخل بواجب والا فحرام بالاجماع ۔