فتویٰ نمبر:4079
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
گھروں میں جو پانی سپلائی کے ذریعے ٹینک میں آتا ہے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پانی شفاف ہوتا ہے مگر اس میں بو ہوتی ہے اور کبھی پانی کا رنگ بدلا ہوا ہوتا ہے مگر بو نہیں ہوتی اس بارے میں کیا حکم ہے؟
والسلام
الجواب حامداو مصليا
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته!
پانی میں اصل طہارت ہے اور کوئی بھی پانی اس وقت تک ناپاک نہیں ہوتا جب تک کہ اس میں کسی ناپاک چیز کے پڑنے کا یقین یا غالب گمان نہ ہوجائے۔گھروں میں چونکہ جو پانی آتا ہے تو کبھی کبھار اس میں گٹر وغیرہ کا پانی مل بھی جاتا ہے لہذا اگر آپ کو اس کی بو وغیرہ سے یہ یقین ہوجائے کہ اس میں واقعتا گٹر کا پانی ملا ہوا ہے، تو اس صورت میں تو وہ نجس ہوگا اور اس سے وضو اور غسل وغیرہ درست نہیں۔ البتہ صرف شک کی وجہ سے وہ پانی ناپاک شمار نہیں ہوگا۔
باقی اگر پانی صرف گدلا ہے اور اس میں کوئی بدبو وغیرہ نہیں ہے تو مٹی کے مل جانے سے پانی گدلا ہوجاتا ہے اور اس سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔
(مستفاد از نجم الفتاوی:85/2)
مافی الولوالجیۃ(۳۹/۱):
“الماء اذا انتن وھو کثیر ان علم بوقوع النجاسۃ او جیفۃ فیہ یتنجس الماء”
وفی ردالمحتار (۱۸۶/۱):
“(قولہ لالو تغیر الخ)أی لاینجس لو تغیر فھو عطف علی قولہ وینجس لاعلی قولہ بموت فتامل ممعنا۔ (قولہ فلو علم الخ) صرح بہ لزیادۃ التوضیح والافھو داخل تحت قول المصنف وبتغیر احد اوصافہ بنجس۔ (قولہ ولو شک الخ) ای ولایلزم السوال بحر، وفیہ عن المبتغی بالغین وبرؤیۃ آثار اقدام الوحوش عند الماء القلیل لایتوضاء بہ ولو مرسبع بالرکیۃ وغلب علی ظنہ شربہ منھا تنجس والافلا اھـ، وینبغی حمل الاول علی ما اذا غلب علی ظنہ ان الوحوش شربت منہ بدلیل الفرع الثانی والافمجرد الشک لایمنع لما فیہ الاصل انہ یتوضأ من الحوض الذی یخاف قذرا ولا یتیقنہ وینبغی حمل التیقن المذکور علی غلبۃ الظن و الخوف علی الشک أو الوھم کما لا یخفی “اھـ۔
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:19رجب1440ھ
عیسوی تاریخ:27مارچ 2019ء
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: