لے پالک کو اس کے حقیقی والد کی طرف منسوب کرنا

فتویٰ نمبر:784

🔎سوال: انعم اپنی 30 سالہ زندگی میں جنہیں اپنا والد سمجھتی رہی اس کو کچھ کاغذات کی ضروری کاروائی کے وقت معلوم ہوا کہ اس کے برتھ سرٹیفیکیٹ میں ولدیت کی جگہ کسی اور کا نام ہے۔ فیملی کے وکیل سے پوچھنے پر علم ہوا کی انعم کے حقیقی والد اس کی پیدائش سے پہلے وفات پا چکے تھے اور انعم کے حقیقی چچا نے اس کی والدہ سے عدت کے بعد نکاح کرلیا اور انعم کو سگی بیٹی سے بڑھ کر پیار دیا اور بہترین تربیت کے ساتھ ہر ضرورت شہزادی کی طرح پوری کی۔

یہ بات اس لیے بتائی کیونکہ انعم کو بہت سخت صدمہ ہوا جب اس کو معلوم ہوا کہ اس کے پیارے ابو اس کے حقیقی والد نہیں اور وکیل بنت کے ساتھ حقیقی والد کا نام لگا رہے تھے تو اس کو ہضم نہیں ہورہا تھا۔

مسئلہ یہ ہے کہ شناختی کارڈ اور باقی ہر کاغذی کاروائی سوائے برتھ سرٹیفیکیٹ کے والد کے نام کی جگہ چچا کا نام لکھا ہے۔ اور یہ بات ایک راز کی طرح ساری زندگی رکھی گئی۔ انعم کی خوشی کے خاطر۔ اگر کہیں انعم کو اب معلوم ہونے کے باوجود کسی جگہ ولدیت میں اپنے حقیقی والد کے نام کے بجائے اپنے چچا کا نام لکھ لے، جیسا کہ وہ ساری زندگی لا علمی میں کرتی آئی تو کیا اس کو قرآن کی آیت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے گناہ ملے گا؟

واضح رہے کہ انعم کے چچا اور والدہ کو اس حکم کا اس وقت علم نہیں تھا کہ حقیقی والد کا نام تبدیل کرنا ناجائز ہے۔

دوسری بات اگر انعم اپنے اصلی ولدیت کا کسی کاغذی کاروائی میں اظہار کرے گی اتنی بڑی عمر میں تو اس کے سسرال، اولاد اور بقیہ بہن بھائی جو سوتیلے ہیں ( لیکن کبھی انعم کو علم نہیں تھا) میں عجیب صورتحال پیدا ہو جائے گی، فتنہ کا بھی اندیشہ ہے۔ 

ایسی صورت میں جیسا نام چلا آرہا ہے اس کو ایسے ہی رہنے دے سکتی ہے؟ یا تبدیل کرنا لازم ہے؟؟ اگر انعم سب کو جواب دینے کی ہمت نہ ہونے کی اجہ سے اور فتنہ کا خوف بھی ہونے کی وجہ سے جو چلا آرہا ہے وہی چلا رہنے دے تو بہت گناہگار ہوگی؟

سائلہ: ا.ب.ج

الجواب حامدۃو مصلية

کسی کو گود لینے سے کوئی شخص نہ باپ ہے نہ متبنٰی اس کی اولاد ہے۔ ہر شخص کی ولدیت صرف اور صرف اس کے حقیقی باپ کی طرف ہی منسوب کی جائے گی، کیونکہ قرآن کریم کا یہ واضح حکم ہے:

وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَo ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ.

’’اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے (حقیقی) بیٹے بنایا، یہ سب تمہارے منہ کی اپنی باتیں ہیں اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی (سیدھا) راستہ دکھاتا ہے۔ تم اُن (مُنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔‘‘

(الاحزاب، 33: 4،5)

پس متبنٰی (منہ بولے بیٹے/ بیٹی) کے حقیقی والدین ہی اس کے والدین ہیں اور رہیں گے، خواہ پرورش کوئی بھی کرے۔ حقیقی والد کا نام ہی والد کے طور پر لکھا اور بتایا جائے گا۔ اپنی ولدیت کسی دوسرے کی طرف منسوب کرنا ناجائز ہے۔ یہ ممانعت نصِ قرآنی سے بھی ثابت ہے اور اس سے جنم لینے والے خرابیاں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ اس لیے ہر شخص کو اس کے حقیقی باپ کی طرف ہی مسنوب کیا جانا چاہیے۔ حدیثِ پاک میں غیرباپ کی طرف منسوب کرنے والوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:

“عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ: لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعٰی لِغَيْرِ أَبِيْهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا کَفَرَ. وَمَنِ ادَّعٰی مَا لَيْسَ لَهُ فَلَيْسَ مِنَّا وَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ. وَمَنْ دَعَا رَجُلاً بِالْکُفْرِ أَوْ قَالَ: عَدُوَّ اللّٰهِ وَلَيْسَ کَذٰلِکَ إِلَّا حَارَ عَلَيْهِ.

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی آدمی جو اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی اور سے منسوب کرے، دراں حالیکہ وہ (اصل حقیقت) جانتا تھا، تو اس نے کفر کیا۔ جو کسی ایسی چیز کا دعویدار ہوا جو اس کی نہیں تھی تو وہ ہم میں سے نہیں ہے اور وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لے۔ اور جس نے کسی آدمی کو کفر کی نسبت سے بلایا یا یہ کہا کہ تم اللہ کے دشمن ہو اور وہ ایسا نہ ہوا تو یہ اسی کی طرف پلٹے گا”۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسی حدیث کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ:

“إِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَرْغَبُوْا عَنْ آبَاءِکُمْ. فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيْهِ فَهُوَ کُفْرٌ.”

“حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے آبا سے انحراف نہ کرو۔ جس نے اپنے باپ سے انحراف کیا، وہ کفر ہے۔”

اس لیے جہاں بھی ولدیت ظاہر کرنے کا موقع ہو وہاں اپنے حقیقی والد کا نام ذکر کریں۔

لہذا مذکورہ صورت میں جن خدشات کا اظہار سوال میں کیا گیا ہے اگر واقعی ان مسائل کا قوی اندیشہ ہے کہ انتشار اور فساد کی صورت پیدا ہوسکتی ہے تو اس کے لیے دارالعلوم دیوبند کے مفتیان کرام کی طرف سے فتوی دیا گیا ہے کہ کاغذی کاروائی میں غیر باپ کی طرف نام کو منسوب کرنے کی گنجائش نکل سکتی ہے تاکہ اس سے بچی کی حالت پوشیدہ رہے اور اسے مسائل کا سامنا نہ ہو,

ایک اور بات قبل ذکر ہے کہ چچا کی وراثت میں انعم وارث نہیں بنے گی لہذا اس صورت میں چچا اگر انعم کے حق میں وصیت کردے تو اسے اتنا حصہ دے دیا جائے گا.

.(مستفاد از:چند اہم عصری مسائل/2)

🔸و اللہ سبحانه اعلم🔸

✍بقلم : بنت معین

قمری تاریخ:18.ذوالقعدہ.1439

عیسوی تاریخ: 31.جولائی.2018

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبدالرحیم صاحب

➖➖➖➖➖➖➖➖

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

📩فیس بک:👇

https://m.facebook.com/suffah1/

====================

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

📮ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک👇

https://twitter.com/SUFFAHPK

===================

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

===================

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں