9 لطائفِ قرآنی

قرآنِ کریم میں انسانی ضمیر کو آخرت کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔سورۂ قیامہ میں اللہ تعالیٰ نے یومِ قیامت اور نفسِ لوامہ (ملامت کرنے والے نفس یعنی ضمیر) کی قسم کھائی ہے۔ اسی سورہ میں آگے چل کر چند آیات ایسی آتی ہیں جن کا براہِ راست راست تعلق انسانی فطرت اور ضمیر کے ساتھ ہے۔
آیت نمبر 5 میں ہے: { بَلْ يُرِيدُ الْإِنْسَانُ لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ} [القيامة: 5]
(بلکہ انسان اپنے ضمیر کے آگے شرارت کرنا چاہتا ہے۔)
آیت 14، 15 میں ارشاد ہے : {بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ (14) وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ (15) } [القيامة: 14 – 15]
(بلکہ انسان خود اپنے اوپر گواہ ہے، خواہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔)
آیت نمبر پانچ کا یہ ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی کا ہے اور عام مفسرین سے ذرا مختلف ہے، تاہم سورت کی مجموعی فضا سے بہت مربوط معلوم ہوتا ہے اور نفسِ لوامہ (ضمیر) کی قسم سے اس کا تعلق نمایاں ہے۔انسان کی فطرت جب تک گناہوں کی ظلمتوں سے مسخ نہیں ہوتی، گناہ کے ارتکاب پر اندر سے کوئی آواز ضرور آتی ہے کہ فلاں معاملے میں فطری حدود سے تجاوز ہوگیا ہے۔یہ آواز اس قدر طاقت ور ہوتی ہے کہ انسان چاہے کتنے عذر تراشے، اپنی غلطی کو جسٹیفائی کرنے کے لیے کتنے خوب صورت الفاظ اور تاویلات کا سہارا لے، اس آواز کو دبانا ممکن نہیں ہوتا۔ کتنے لوگوں کے حالات میں درج ہے کہ وہ زندگی میں کوئی بڑاجرم کر بیٹھے لیکن اندر کی یہ آواز ان کے لیے سوہانِ روح بن کر رہ گئی اور حتی کہ انھوں نے خود کشی کے ذریعے ضمیرکے اس بوجھ سے چھٹکارا حاصل کیا۔ آخرت کی عدالت ، اس اندر کی عدالت کا بڑا اور مجسم مظہر ہوگا۔
قدیم یونانی فلسفے میں افلاطون کے افکار میں مابعدالطبیعی ثنویت (Metaphysical Dualism) کا تصور ملتا ہے۔اس کی فکر کا ایک پہلو وجودیاتی طور پر حقیقی یا Actually Existent ہے جو اس کے نزدیک اصل کی نقل ہے۔ گویا کائنات کے وجودی مظاہر اس اصل Archetype کا ظل ہیں۔افلاطون پہلا فلسفی ہے جس کے ہاں فلسفے کا معروف مسئلہ Mind اور Matter کی دوئی مربوط طور پر ملتا ہے۔ اس بات کو مذکورہ بالا قرآنی حقیقت سے مربوط کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ انسانی ضمیر ، آخرت کی عدالت کے Archetype کا ظل ہے جو ایک دن اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوکر رہےگا۔

 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں