وقت جس تیز رفتاری سے گزررہا ہے اسی تیز رفتاری سے مسلمانوں کے اندر جاہلیت کی رسمیں جنم لے رہی ہیں۔زمانہ جاہلیت میں چھوٹی بات پر لڑائی ہوجاتی تھی اور قبیلے کےقبیلے کٹ جاتے تھے ۔لوگ فال بہت نکالا کرتے تھے ،سٹہ باری اور شرطیں عام تھیں۔عورتیں بناؤ سنگھار کر کے سر عام گھوما پھرا کرتی تھیں اور بھی بہت سی خرابیاں زمانہ جاہلیت میں پائی جاتی تھیں۔آج دھیرے دھیرے یہ سب خرابیاں پھر سے انگڑائیاں لے رہی ہیں ۔انہیں خرابیوں میں سے ایک لڑکی کی پیدائش پر غم زدہ ہونا ہے ۔ آج کل ہمارے بعض مسلمان بھائی لڑکی کی پیدائش پر غم زدہ ہوتے اور اپنا دل چھوٹا کرتے ہیں جو سراسر دینی تعلیمات سے انحراف ہے۔اسلامی تعلیمات کی رو سے لڑکی کی پیدائش پر اسی طرح خوشی منانی چاہئے جس طرح لڑکے کی پیدائش پر مناتے ہیں ۔لڑکی ہو یا لڑکا یہ دونوں ہی عطیہ خداوندی ہیں،اس لیے لڑکی کی پیدائش پر بد دل ہونا طاقت شعار مومن کے لیے کسی طرح مناسب نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری اور ناقدری ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو خدا اس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو یہ کہتے ہیں : ” اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔ وہ لڑکی کو اپنے پروں میں لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں : ” یہ ایک کمزور جان ہے،جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے،جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے ساتھ شامل رہے گی “۔
ہمیں چاہیے کہ ہم لڑکیوں کی تربیت خوش دلی کے ساتھ کریں اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کا وعدہ ہے ۔ حدیث میں ہے کہ جس شخص نے تین لڑکیوں یا تین بہنوں کو اچھی تعلیم دلوائی اور ان کے ساتھ رحم کا معاملہ کیا تو ایسے شخص کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت واجب کردی ہے۔ ( مشکوۃ )