کتب کرائے پردینےکاحکم

محترم جناب مفتی صاحب دارالافتاہءجامعہ دار العلوم کراچی

السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ

درج ذیل مسائل میں شرعی رہنمائی مطلوب ہے، امید ہے کہ تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں گے۔

۱۔ بعض کمپنیوں میں ہر سال چند ملازمین کو حج پر بھیجنے کی ترتیب ہوتی ہے، یعنی کمپنی اپنی طرف سے ملازمین کو حج کرواتی ہے۔ لیکن کمپنی اس کیلئے یہ شرط لگاتی ہے کہ ملازم سو فیصد حاضری دے، ایسے ملازم کا نام ترتیب میں شامل کیا جائےگا اور پھر اس کو حج پر بھیجا جائے گا۔ (ٓلف) کیا کمپنی کا اس طرح کی شرط لگانا درست ہے؟ (ب) اور اس طرح جو ملازم حج کرتے ہیں ان کا حج ادا ہوجاتا ہے یا نہیں؟ (ج) اگر کسی ملازم پر حج فرض نہ ہو، لیکن کمپنی کی طرف سے حج کرکے آنے کے بعد اس کے پاس اتنا مال آجائے جس سے حج فرض ہوجاتا ہے تو کیا حج فرض ہونے سے پہلے جو حج کیا تھا وہ کافی ہوجائے گا حجِ فرض دوبارہ کرنا ہوگا؟

۲۔ بعض اداروں میں ملازم سے تقرر کے وقت زرِ ضمانت کے طور پر کچھ رقم لی جاتی ہے، اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خدا نخواستہ اگر ملازم کمپنی کو کوئی ایسا نقصان پہنچائے جس کی تلافی شرعاً اس پر لازم ہو، وہ اس رقم سے وصول کیا جاسکے، کیا ملازم سے سکیورٹی کے طور پر کچھ رقم لینا درست ہے؟ نیز چونکہ ملازم زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں، اس لیے سکیورٹی کی رقم بھی زیادہ مقدار میں ہوتی ہے، اور اس رقم کو امانت کے طور پر سنبھالنا بھی مشکل ہوتا ہے، اس کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ یہ رقم کاروبار میں لگادی جاتی ہے، تاکہ اس سے نفع بھی ملتا رہے ، اور جب ملازم فارغ ہو اس کو وہ رقم واپس کردی جائے، کیا اس رقم کو کاروبار میں لگا کر اس سے نفع حاصل کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

۳۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص نے ابتداء میں جب شناختی کارڈ بنوایا تھا تو اس وقت عمر ایک سال چھوٹی لکھوائی تھی، پھر اسکول میں بھی شناختی کارڈ والی تاریخ لکھوائی اور یہی میٹرک اور دیگر تمام سرٹیفکٹس میں بھی درج ہے، چناچہ اسی بنیاد پر ملازمت کی لیےجس ادارہ میں گیا وہاں بھی وہی تاریخ لکھوائی، اب مسئلہ یہ ہے کہ اس ادارے میں پچاس سال کی عمر میں ملازم کو یرٹائر کردیا جاتا ہے، اب اگر اس شخص کی عمر حقیقت میں پچاس سال ہوجاتی ہے، لیکن کاغذات کے حساب سے اننچاس سال بنتی ہے، کیا یہ شخص کاغذات کے حساب سے پچاس سال کی عمر تک ملازمت کرسکتا ہے جبکہ حقیقت  میں اس کی عمر اکیاون (۵۱) سال ہوگی؟

۵۔ آخر میں ایک اور رائج اہم مسئلہ میں بھی رہنمائی فرمادیں کہ آج کل بعض لوگ لائبریری کی شکل میں ایک دوکان بنالیتے ہیں اور اس میں مختلف قسم کی کتابیں اسلامی، غیر اسلامی، ناول، ڈائجسٹ اور میگزین وغیرہ رکھ لیتے ہیں، پھر ان کتابوں کو کرایہ پر دے کر نفع حاصل کرتے ہیں، اس میں لوگوں کے لیےبھی سہولت ہے کہ، اگر کسی ایک کتاب کا وقتی طور پر مطالعہ کرنا ہے لیکن قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے خرید نہیں سکتا، تو اس کےلیے آسان راستہ ہے کہ تھوڑے پیسوں میں دو یا تین دن کےلیے کرایہ پر لے لے اور پڑھنے کے بعد واپس دیدے۔ اس طرح کتابیں کرایہ پر دینے میں کوئی مضائقہ تو نہیں ہے؟

جزاکم اللہ تعالیٰ خیرا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب حامداً و مصلیاً

(۱)۔۔۔۔  (الف): کمپنی کا اپنے ملازمین کو حج پر بھیجنے کے لیےسو فیصد حاضری کی شرط لگانا جائز ہے، کیونکہ کسی ملازم کو حج کے لیے بھیجنا کمپنی کی طرف سے تبرع اور انعام ہے، اور انعام کو سو فیصد حاضری کے ساتھ مشروط کیا جاسکتا ہے۔

(ب): اگر احرام کی پابندیوں کا خیال کرتے ہوئے حج کے ارکان صحیح طریقے سے ادا کیےجائیں تو حج ادا ہو جائے گا۔

(ج): مذکورہ ملازم اگر حجِ فرض یا مطلق حج کی نیت سے احرام باندھ کر حج کرے تو اس کا حجِ فرض ادا ہوجائے گا، اور بعد میں صاحب نصاب ہونے کی وجہ سے اس پر دوبارہ حج فرض نہ ہوگا۔

 (۲)ملازمت کا معاملہ شرعاً عقد اجارہ ہے، اور عقد اجارہ ایسی شرط سے فاسد ہوجاتا ہےجو مقتضائے عقد کے خلاف ہو، کیونکہ ایسی شرط فریقین کے درمیان نزاع کا باعث بنتی ہے، لیکن اگر عرف میں ایسی شرط کا رواج ہوجائے اور لوگ آپس میں ایسی شرط کے ساتھ معاملات کرنے لگیں اور اس میں کسی قسم کا نزاع نہ ہوتا ہو تو عقد اجارہ میں ایسی شرط لگانے کی گنجائش ہے اور اس سے عقد فاسد نہیں ہوتا۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں ملازم سے تقرر کے وقت سکیورٹی کے طور پر کچھ رقم لینا اور اس رقم کو کاروبار میں لگا کر نفع حاصل کرنا جائز ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ ’’اجارہ بشرط القرض‘‘ ہے، جو اصلاً اگرچہ ناجائز ہے لیکن چونکہ یہ شرط آج کل متعارف ہوچکی ہے اور فریقین کے درمیان باعثِ نزاع نہیں ہوتی اس لیےیہ معاملہ جائز ہوگا۔

تا ہم مذکورہ جواب چونکہ کسی صریح جزئیہ کے بجائے ضوابط پر مبنی ہے اس لئے دیگر اہلِ فتوی علماءِ کرام سے بھی رجوع کرلیا جائے۔

(۳) مذکورہ شخص میں اگر کام کی صلاحیت ہو اور سپرد کیےہوئے کام صحیح طور پر انجام دے سکتا ہے تو اس شخص کےلیے کاغذات کے حساب سے پچاس سال کی عمر تک ملازمت کرنے کی گنجائش ہے، اگرچہ حقیقت میں اس کی عمراکیاون سال ہو۔ کیونکہ سرکاری حلقوں اور دفاتر وغیرہ میں عام طور پر میٹرک اور کاغذات میں لکھی ہوئی تاریخ پیدائش ہی کا اعتبار کیا جاتا ہے اور ریٹائرمنٹ کا ضابطہ بھی اسی کے مطابق ہے۔

(۴)  جو کتب و رسائل فحش اور خلاف شرع مضامین پر مشتمل ہوں انہیں کرایہ پر دینا معصیت اور گناہ میں تعاون کرنا ہے جو ناجائز ہے۔ البتہ جو کتب و رسائل اسلامی ہیں یا جن کے مضامین خلافِ شرع نہیں ہیں ان کو کرایہ پر دینے کے بارے میں حضرات فقہاء کرام کا اختلاف ہے، حضرات ائمہ ثلاثہ ؒ کے نزدیک جائز ہے اور فقہاء احناف ؒ کی عام تصریحات کے مطابق ناجائز ہے، لیکن آج کل اس کا عرف ہوجانے کی وجہ سے احناف ؒ کے نزدیک بھی اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، کیونکہ شرح العینی  کی عبارت سے اجارہ کتب کے ناجائز ہونے کی وجہ ’’عدم تعارف‘‘ معلوم ہوتی ہے، اور چونکہ آج کل کتب اور رسائل کے کرایہ پر دینے کا عرف عام ہے اس لیے اس معاملہ کی گنجائش ہے، تاہم بہتر یہ ہے کہ اس کو مستقل پیشہ نہ بنایا جائے۔

واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم بالصواب

دار الافتاء جامعہ دار العلوم کراچی

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ   پی ڈی ایف فائل  میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/551671581868758/

 

 

اپنا تبصرہ بھیجیں