فتویٰ نمبر:411
سوال: زید نے چوری کی تھی عمر و نے کہا کہ آپ (زید ) نے چوری کی ہے زید منکر ہے عمرو نے کہا اگر آپ نے چوری کی ہو تو پھر آپ کو کلما کی طلاق ہو زید نے کہا ایک نہیں دس ہوں ۔ زید نے یہ الفاظ خوف کی وجہ سے کہے کہ کہیں مجھ پر ظلم یا زیادتی نہ ہو بعد میں زید نے اقرا ر کرلیا کہ میں نے چوری کی تھی اب جب نکاح کا وقت آیا تو زید نے سمجھا کہ شافعی کا مذہب ہے کہ طلاق قبل النکاح اس لئے میرا نکاح صحیح ہے اب زید نے تبلیغ میں وقت لگایا ہے اب بہت پریشان ہے ۔
آپ سے یہ دریافت کرنا مطلوب ہے کہ
1)کیا آئمہ اربعہ میں سے کسی نے اس طرح کے نکاح کے جواز کا فتویٰ دیا ہے ؟
2)اگر آئمہ اربعہ نے فتویٰ دیا ہے تو بامر مجبوری یہ نکاح درست ہے ؟
3)کیا زید کے ساتھ قطع تعلقی جائز ہے ؟
4)کیا زید اس نکاح کی وجہ سے کافر ہے یا مسلمان ؟
5)جو لوگ زید کی اس حالت کو جانتے ہوئے نکاح میں شریک ہوئے ان کا نکاح باقی ہے یا نہیں ؟
6)کیا زید کی اولاد حلالی ہے ؟
7) آپ کے فتویٰ پڑھنے اور جاننے کے باوجود اگر زید اپنی زوجہ سے تعلق قائم رکھے تو پھر زید کے متعلق کیا حکم ہے کہ مسلامن یا کافر ؟
جواب : عمرو کے قول ” اگر آپ نے چوری کی ہو تو آپ کو کلما کی طلاق ہو ” کے جواب میں زید کا یہ کہنا کہ ایک نہیں دس ہوں ” خود زید کی طرف سے یہ کہنے کے مترادف ہے : ” میں نے افر چوری کی ہو تو میں جب بھی شادی کروں مجھے ۔۔۔کلما کی ایک نہیں دس طلاق ہوں ” اور زید واقعی چوری کر بھی چکا ہے تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی ۔(دیکھئے عبارت نمبر 1 اور عبارت نمبر 2)
اس تمہید کے بعد اب پوچھے گئے سوالات کے جوابات لکھے جاتے ہیں :
1)حنفی مذہب میں یہ نکاح درست نہیں ۔ ( عمدۃ القاری 12/253، ہدایۃ المجتہد :2/63)
2)امر مجبوری بھی یہ نکاح درست نہیں ( دیکھئے : عبارت نمبر 3)
3)جی ہاں ! زید جب تک اس عورت سے علیحدگی اختیار کر کے اپنے اس فعل پر صدق دل سے توبہ نہیں کرتا، اس وقت تک اس سے قطع تعلقی جائز ہے ۔ (دیکھئے :عبارت نمبر4)
4،5،7۔ یہ سب مسلمان ہیں۔
6) زید کی اولاد کو حرامی کہہ کر نہیں پکارنا چاہیے ۔
1۔فی الدرالمختار : “ولو قیل لہ ” اطلقت امراتک ؟ فقال : نعم او بلیٰ بالھجاء ،طلقت ۔” ( رد المختار :2/468 رشیدیہ)
3۔قال العلامۃ التمرتاشی : ” ویقع طلاق کل زوج بالغ عاقل ولو عبداً،اومکرھا،اوھازلاً،اوسفیھا،اوسکران۔” ( رد :2/256)
4۔ فی تکملۃ فتح الملھم :” ثم ان الھجران الممنوع انما ھو ما کان لسبب دنیوی ،اما اذا کان بسبب فسق المرء وعصیانہ ، فاکثر العلماء علی جوازہ ۔ ” (تکملۃ فتح الملھم :5/355،356)
وفی الدر :” ارتحل الیٰ مذھب الشافعی ،یغرر ۔” (رد :3/208)
فی ردالمختار : ” وفی الفتاوی الصغری : ” الکفر شئی عظیم فلا اجعل المؤمن کافر امتی وجدت روایۃ انہ لایکفر ۔والذی تحرر انہ لایفتی بکفر مسلم امکن حمل حمل کلامہ علی محمل حسن ، اوکان فی کفرہ اختلاف ، ولو روایۃ ضعیفۃ، فعلی ھذا فاکثر الفاظ التکفیر المذکورۃلا یفتی بالتکفیر فیھا ، ولقد الزمت نفسی ان لا افتی بشیء منھا۔کلام البحر اختصاراً۔” (رد المحتار :3/3112) رشیدیہ)
وفیہ ایضاً : ” نعم سیذکر الشارح ان ما یکون کفراً اتفاقا یبطل العمل والنکاح ، وما فیہ خلاف ، یؤمر بالستغفار والتوبۃ وتجدید النکاح ۔وضاھرہ انہ امراحتیاط ۔” (رد المختار :3/312)
زید کو چاہیے کہ وہ فوراً اپنی بیوی سے علیحدہ ہوجائے اور اپنے اس فعل سے سچے دل سے توبہ کرے ۔ پھر اسی عورت سے یا دوسری سے نکاح کی یہ صورت اختیار کرے کہ نہ خود ناکح کرے ، نہ کسی کو نکاح کا وکیل بنائے بلکہ کسی سمجھدار آدمی کے سامنے یہ بات رکھے کہ میں نے ایسی قسم کھالی ہے اور اب میرا نکاح کرنے کا ارادہ ہے اور اس کے جائز ہونے کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص میعی اجازت کے بغیر میرانکاح کردے اور پھر مجھ کو خبر دے اور میں یہ سن کر تحریری طور پر اس کی اجازت دے دوں ۔ اس طرح کرنے سے میرا نکاح درست ہوجائے گا اور طلاق واقع نہ ہوگی ۔
یہ سن کر کوئی شخص مذکورہ بالا طریقے سے اس کا نکاح کرادے تو طلاق واقع نہ ہوگی ، (امدادالفتاویٰ :2/459، احسنا لفتاویٰ :5/176)
نکاح کا یہ طریقہ سمجھ میں نہ آرہا ہو تو کسی عالم کے پاس جاکر سمجھ لیں ۔