آج کے دور میں ہم آئنسٹائن کے نظریہ اضافت کو پڑھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ آئنسٹائن نے اس قسم کے قوانین کیسے دریافت کئے جنہیں معلوم ہونے کے باوجود بھی انسانی ذہن مشکل سے ہی قبول کرتا ہے۔ ہمارا ذہن قبول نہیں کرتا کہ ایک فرد کے لئے جو وقت ہے وہ کسی اور فرد کے لئے الگ ہوسکتا ہے۔ ہمارا ذہن آسانی کے ساتھ یہ قبول نہیں کرتا کہ کوئی چیز جب انتہائی تیز رفتاری سے سفر کرتی ہے تو اس کے لئے فاصلے سکڑ جاتے ہیں اور غیر متحرک چیز کے لئے وہی فاصلہ زیادہ رہتا ہے۔ ہم یہ ماننے میں وقت محسوس کرتے ہیں مادہ سپیس ٹائم میں خم پیدا کرتا ہے۔ آئنسٹائن کی دریافتیں مخالف وجدانی (Counter Intuitive)ہیں.یعنی ہمارے ذہن نے بچپن سے اپنے تجربات سے وقت اور خلا کو جیسے سمجھا آئنسٹائن کی دریافت اس کو غلط ثابت کرتی ہیں اور ہمارے لئے یہ مشکل ہوجاتا ہے کہ ہم خود اپنے شعور کے برسوں سے پلے ہوئے خیالات کو رد کردیں۔ اور پھر وہ ذہن کتنا بڑا ہوگا جس نے یہ سب کچھ دریافت کیا جب کہ یہ باتیں انسانوں کو معلوم نہیں تھیں؟؟ آئنسٹائن کی جینیس پر انسان حیران رہ جاتا ہے۔
لیکن نیوٹن کی دریافتوں کو قبول کرنے میں ہمیں زیادہ مشکل نظر نہیں آتی۔ یہ ماننا کہ مادہ ایک دوسرے کو کھنیچتا ہے جس کی وجہ کشش ثقل ہے کونسی بڑی بات ہے؟ اس اعتبار سے شاید ہم آسانی سے یہ مان لیں کہ آئنسٹائن نیوٹن سے بڑے سائنسدان ہیں۔
لیکن کیا واقعی میں ایسا ہے؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ مائیکل ایچ ہرٹ نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے ان سو شخصیات کا رینکنگ کے ساتھ ذکر کیا ہے جنہوں نے انسانی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر چھوڑا۔ ان کی رینکنگ کے حساب سے نیوٹن دوسرے نمبر پر اور آئنسٹائن دسویں نمبر پر ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ نیوٹن نے ایسا کیا کیا جو نیوٹن کی رینکنگ کو آئنسٹائن سے اتنا آگے کردیا۔
حقیقت یہ ہے کہ نیوٹن کی دریافتیں بھی اپنے دور کے حساب سے اتنی ہی مخالف وجدانی یا counter intuitive تھیں۔ کشش ثقل کا ہی اصول لے لیجئے، سترھویں صدی کے دور میں ایک فرد ایک اصول بناتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ ایک ہی اصول زمینوں میں بھی لاگو ہے اور آسمانوں میں بھی۔ سمجھنا چاہئے کہ نیوٹن کا کارنامہ یہ نہیں ہے کہ نیوٹن نے یہ کہا کہ زمین کی کشش کی وجہ سے چیزیں نیچے گرتی ہیں، بلکہ آگے بڑھ کر یہ بھی کہا کہ چاند کے زمین کے گرد گھومنے میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ بلکہ اس کشش ثقل کو سورج پر بھی لاگو کردیا اور یہ بتایا کہ یہی کشش ثقل سورج میں بھی ہے اور اسی کشش ثقل کی وجہ سے زمین سورج کی گردش سے نکل نہیں پارہی ہے۔
کشش ثقل کے ساتھ ہی نیوٹن نے حرکیات کا ایک اور قانون دریافت کیا وہ بھی اتنا ہی اہم ہے۔ ہم دیکھتے کسی بھی چیز کو مستقل متحرک رکھنے کے لئے مسلسل قوت دینی پڑتی ہے۔ لیکن نیوٹن نے اس کو بھی الٹ کردیا۔ نیوٹن کے مطابق کسی چیز کا ایک ہی رفتار کے ساتھ متحرک ہونا اور ساکن ہونا ایک ہی کیفیت ہے۔ دھکے اور زور کی ضرورت جبھی پڑتی ہے جب اس چیز کی رفتار کو بڑھانے کی ضرورت ہو ورنہ ایک ہی رفتار پر متحرک رکھنے کے لئے کسی فورس کی ضرورت نہیں پڑتی۔ زمین پر یہ جو ہمارا مشاہدہ ہے کہ رفتار کو مستقل رکھنے کے لئے مسلسل زور لگانے کی ضرورت پڑتی ہے اس کی وجہ رگڑ یا friction ہے۔ یہ نیوٹن کا پہلا کلیہ تھا اگرچیکہ گلیلیو نے بھی اس کو مختلف انداز میں بیان کیا تھا۔ ویسے تو یہ بات اب بالکل معلمولی لگتی ہے لیکن سترھیوں صدی میں اس قانون کی دریافت بھی کشش ثقل کی دریافت جتنا ہی بڑا کارنامہ تھا۔ یہ کلیہ نیوٹن نے چاند اور سیاروں کی حرکیات پر بھی لاگو کیا۔ نیوٹن نے حرکیات کے پہلے کلیے اور کشش ثقل کے قانون کو ملا کر اجرام سماوی کے تمام حرکیات کے مسئلوں کو حل کردیا۔ یہ مسئلہ صرف آئیڈیاز دینے کی حد تک نہیں ہے۔ بلکہ اپنے کلیوں کو باقاعدہ علم ریاضی کی شکل دے کر ایک ایک چیز فارمولوں سے ثابت کردی۔
سائنسی اصولوں کو حساب اور فارمولوں میں اس طرح منضبط کرنا بھی انسانی تاریخ کا ایک حیران کردینے والا واقعہ ہے، اور یہ بھی وہ اصول جو زمین اور آسمانوں پر یکساں لاگو ہورہے ہوں۔