دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:120
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بخدمت حضرت مفتی محمود اشرف صاحب دامت برکاتہم العالیہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے حضرت خیریت سے ہونگے اللہ تعالی حضرت کو عافیت و خیریت سے رکھیں ۔حضرت آپ کے حکم کے مطابق سوال تحریر ارسال ہے ۔ میرا گھر ہے جو میں نے کرائے پر دیا ہوا ہے اس میں ہم نے یہ طے کیا ہے کہ کرایہ دار جب بھی گھر میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی کرے گاجیسے کمروں کے درمیان لکڑی کی پارٹیشن لگانا یا دیواروں میں الماریاں فکس کرنا جیسے ڈرل وغیرہ سے سوراخ کرکے راول بولٹ لگانا یا کہیں فائبر گلاس کی چھت لگا دینا نیم اور اینٹوں کا کمرہ بنا دینا یا ماربل کے فرش پر لکڑی کی فلورنگ کردینا یا ماربل میں سوراخ کر دینا وغیرہ) تو اس میں پہلے مجھ سے اجازت لے گا ۔
اب میں اس کو اجازت دیتا ہوں لیکن ایک شرط کے ساتھ وہ یہ کہ جب بھی وہ کرایہ دار گھر خالی کرے گا تو میری یعنی مالک مکان کی مرضی ہوگی کہ وہ (کرایہ دار)ان چیزوں کو اتار کر گھر پرانی حالت میں کرکے جائےیا ان کو اسی طرح لگا رہنے دے،دونوں صورتوں میں، میں یعنی مالک مکان اس کو کوئی معاوضہ نہیں دوں گا۔
کیونکہ اگر وہ ان چیزوں کو اتارتا ہے تو میری عمارت کی چیزوں کو بہر حال کسی نہ کسی درجے میں نقصان ہوتا ہے مثلا وہ جتنے سوراخ دیوار میں کرے گا اس سے دیوار کمزور تو ہوگی اگرچہ وہ بعد میں اس کو بھر دے ،تو کیا میرا یہ شرط لگانا جائز ہے؟
اگر ناجائز ہے تو اس شرط کی بنا پر جو چیزیں پہلے سے ہمارے پاس موجود ہیں ان کا کیا کیا جائے؟اسی طرح ایسی صورت میں کیا شرط لگائی جائے کہ ہمارے گھر کی مضبوطی بھی باقی رہے اور کرایہ داروں کی ضرورت بھی پوری ہوجائے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدا ومصلیا
(١)۔۔۔صورت مسؤلہ میں کرایہ دار پر یہ شرط لگانا کہ گھر میں نصب کی جانے والی اشیاء گگھر خالی کرتے وقت بلامعاوضہ مالک کی ہوگی نا جائز ہے ۔کرایہ دار اپنی اشیاء کا مالک ہے اور بلا معاوضہ اس کی چیز لینا جائز نہیں۔ لہٰذا اگر اس چیز کےاتارنے میں عمارت کا نقصان نہ ہو تو وہ اپنی چیز اتار کر لے جا سکتا ہے ،اگر اتارنے میں عمارت کو نقصان پہنچتا ہو تو مالک مکان تنصیبات کی اکھڑی ہوئی حالت کی قیمت ادا کر کے خود مالک بن سکتا ہے۔
(٢)۔۔۔اب تک جتنی چیزیں اس طرح بلاعوض لی گئی ہیں وہ اشیاء یا ان کی قیمت اصل مالکان کو واپس کرنا ضروری ہے۔
اگر اشیا نصب کرنے سے عمارت کو نقصان پہنچتا ہو تو کرایہ دار کو اشیاء نصب کرنے سے روکا جاسکتا ہے، اور اگراس کی ضرورت کے پیش نظر اجازت دینا ضروری ہو تو اس صورت میں درج ذیل صورتوں میں سے کسی پر عمل کیا جاسکتا ہے:
١:تنصیبات کو باقی رکھا جائے اور ان کی قیمت کرایہ دار کو دی جائے قیمت میں اکھڑی ہوئی حالت کا اعتبار ہے۔
٢:تنصیبات کرایہ دار اکھاڑ کر لے جائے اور مالک کی عمارت کا جو نقصان ہوا ہے اس کا کسی ثالث سے اندازہ لگا کر کرایہ دار وہ نقصان مالک کو ادا کردے ۔
٣:تنصیبات لگانے کے بعد کرائے میں اضافہ کیا جائے اور گھر خالی کرتے وقت تنصیبات اکھاڑ کر لے جانے کی اجازت دی جائے۔
الدر المختار(٦/٣٠)
(و)تصح اجارة ارض( للبناء و الغرس) وسائر الانتفاعات كطبخ أجر وخزف ومقيلا ومرا حا حتى تلزم الاجره بالتسليم امكن زراعتها ام لا بحر ۔۔۔۔۔ألخ
في الشاميه (قوله ؛لأن فيه نظرا لهما)حيث أوجبنا للمؤجر تسلم ا لأرض ۔۔۔۔ألخ
سید حسین احمد
دار الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
١١،جمادی الاولی ١٤٣٩ ھ
٢٩،جنوری ٢٠١٨
عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
https://www.facebook.com/groups/497276240641626/544356652600251/