راز حیات
گاؤں کا ایک ٹٹ پونجیا ۔ دولت مند بننے کا خواب دیکھا ۔ محنت کو شعار بنایا اور قسمت نے بھی ساتھ دیا۔ بلا خر اس نے اپنے خواب کی تعبیر پالی۔ اب اسے اپنے سارے ارمان پورے کرنے تھے ۔ عیاشی کے راستے پر چل نکلا ۔ ایک سو چالیس میل فی گھنٹہ رفتار والی نئے ماڈل کی کار خریدی ۔ بارہ بارہ میل تک پوری رفتار والی نئے ماڈل کی کار خریدی ۔ بارہ بارہ میل تک پوری رفتار سے گاڑی چلاتا ۔ بے تحاشا پیٹرول ضائع کرتا اور اسے کچھ ملال بھی نہ ہوتا ۔ جب اس نے بے مقصد کام سے اکتا گیا تو نیا مشغلہ ڈھونڈنے کی سوجھی ۔ خیالات بھٹکے ۔ ایک دو شیزہ کے چکر میں پڑگیا ۔ اس کے لیے دولت کے دہانے کھول دیے ۔ اس سے بھی جی بھر گیا توگھڑ دوڑ جیتنے کی دھن سوار ہوئی ۔ جوئے کی بازیوں میں لاکھوں لٹانے لگا۔ الغرض ! صبح سے شام تک اس کا ایک ہی کام تھا : اپنے دل ودماغ کی ہر تمنا کے پیچھے لپکتے چلے جانا ۔” کوئی آرزو اب بھی باقی ہے؟ ” ایک بے تکلف دوست نے پوچھا ۔ ” کیا تم میری زندگی کو مثالی زندگی کی نظر سے دیکھ رہے ہو اسماعیل ! ” اس نے نہایت غصیلے لہجے میں کہا ۔ ” خدا کی قسم ! میں دنیا کا بد نصیب اور بت کار ترین آدمی ہوں ۔ کاش ! میں بے کار نہ ہوتا ۔ میں کچھ بن کے دکھاتا ۔میرا ضمیر مجھے مار ڈالتا ہے۔” وہ ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے کہہ رہاتھا اور اسماعیل حیرت سےاسے دیکھتا چلا جارہاتھا ۔
شاہراہ کنارے دو دوست آپس میں ملے ۔” کیا چھٹی پر آئے ہوئے ہو ؟ ” ایک نے پوچھا ۔ ” نہیں ! ہم آج پھر اسٹرائیک پر ہیں ۔” دوست نے جواباً کہا، جو ایک موٹر کار بنانے کے کارخانے میں ملازم تھا ۔ ” پھر کیا آفت پیش آئی تمہیں ؟ سوال کرنے والے نے خاصی جھنجھلاہٹ سے پوچھا سے پوچھا۔ کیونکہ وہ جانتا تھااس کارخانے کے کارکنوں کی تنخواہیں شہر بھر کی فیکٹریوں سے زیادہ ہیں ۔ ” آپ کو سچ بتاتا ہوں، ہوس کبھی سیر نہیں ہوتی ۔ ” ھل من مزید ” کا سر جسے لگ جائے، کبھی ٹھیک نہیں ہوتا ۔ میں تو اپنی تنخواہ پر خوش ہوں ۔ مگرمیرے ساتھی ملازمین بڑے بے صبرے ہیں ۔ ہر ایک کو لاکھ ، لاکھ روپے بھی تنخواہ ملے ، راضی نہیں ہوں گے ۔ ” دوست نے تفصیلی اور قابل اطمینان جواب دیاتھا ۔
اب آپ چند اور واقعات کے ذریعے اس راز حیات تک پہنچنے کی کوشش کیجئے ، جو ہم آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔
ایک نہایت معزز خاتون کا گھر قیمتی سامان، آرائشی اشیاء اور آرٹ کے شہ پاروں سے بھر ا تھا۔ اس نے ایک روز اپنا سارا سازوسامان نیلام کروادیا ۔ اتنی محنت سے بنائے گئے گھر کو نیلام کروادیا۔ اتنی محنت سے بنائے گئے گھر کو نیلام ہوتے دیکھ کر اس کے ایک عزیز نے کہا: ” مجھے افسوس ہے، کس شوق سے اکھٹا کیاہوا، خوش نماسامان کوڑیوں کے مول فروخت ہورہا ہے ۔” خاتون خانہ جواب دیا: ” بالکل نہیں ! بلکہ مجھے اپنی روح کی اصلاح پر خوشی ہے۔ میرے پاس ایک اور چھوٹا سا گھر ہے۔ وہ صرف کتابوں سے ہی آراستہ ہے۔ یہ کتابیں ہی میرا اصل سرمایہ ہیں۔میں آج بہت خوش ہوں کہ مجھے ان فضولیات سے نجات ملی۔”
ڈاکٹر ” ہاروے ڈبلیو لے ” واشنگٹن کے ایگریکلچر کے محکمے کے چیف کیمسٹ تھے۔ ایگلریکلچر کی ہاؤس کمیٹی نے اسے دعوت دی۔ اس دعوت نما میٹنگ میں دیگر ڈکٹروں نے چئیر مین کو اس کی ایک عادت پر سخت سست کہا۔” ولے” سے کہاگیا : ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کی کی تنخواہ آپ کے بعض ماتحتوں سے بھی کم ہے ۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ چیف کیمسٹ لیے حیرت سے انہیں دیکھا اور کہا :” میں کنوارا ہوں۔۔۔ آپ آج کی بات کرتے ہیں ، میں نے تو گزشتہ 19 سال سے کسی ترقی کا مطالبہ نہیں کیا ۔ کیونکہ جو کچھ مجھے مل رہا ہے وہ میری ضروریات کے لیے کافی ہے۔” اس نے تفصیل سے وضاحت کی اور اس کے میزبان ڈاکٹر ز حیرت وتاسف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اسے دیکھتے رہ گئے ۔
قارئین ! آپ نے تجزیہ کیا، مسرت کا راز زیادہ پیسے مل جانا ہر گز نہیں ۔ دلی سکون ، ہرارمان پورا کر لینے سے کبھی نصیب نہیں ہوسکتا ۔ عقل مندی کا تقاضے لالچی ذہنیت اور زیادہ کی طلب سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ آپ دنیا کے مالدار ترین لوگوں کے احوال پڑھیے ۔ آپ کو وہ دولت وشہرت کے بام عروج پر بھی حیرت وحسرت سے اپنی انگلیاں چباتے نظر آئیں گے ۔ ہتھیلی کی خارش اور دل کی آگ کسی بھی حد پر جاکر ختم نہیں ہوتی ۔ ہمیشہ ” کچھ اور ” کی ہوس اور مسلسل خواہش سے مایوس کردیا ہے ۔ خود کو سمجھا کر قناعت کا وصف اختیار کرنے پر آمادہ کر لیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو جو کچھ دیتا ہے، اس سے آن کی آزمائش کرتا ہے ۔ اگر وہ اپنی قسمت پر راضی نہ ہوں تو ان کی روزی کو وسیع نہیں کرتا ۔”
( مسند احمد ) حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جو آدمی تھوڑی سی روزی پر راضی ہوجاتا ہے ۔” ( سنن البیھقی ) آپ ان نبوی رویوں پر غور کیجئے ۔ قناعت پسندی ، کفایت شعاری اور اتباع سنت ہی اصل لاءف اسٹائل ہے۔ یہی ” اپر کلاس ” “ایلیٹ کلاس ” اور ” فرسٹ کلاس اسٹائل ہے ۔۔۔
اگر ہم سمجھیں !!