فتویٰ نمبر:987
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
السلام عليكم ورحم الله وبركاته
بچوں کی پیدائش پر بچے کو جو تحائف ملتے ہیں ان کو بیچ کر والدین رقم اپنے استعمال میں لاسکتے ہیں؟؟
اسی طرح شادی کے موقعہ پر جو تحائف دلہن کو ملتے ہیں کپڑے برتن وغیرہ اس کو لڑکی کے والدین لڑکی کے علم میں لائے بغیر اسے آگے کسی اور کو تحفہ دے دیں یہ جائز ہے؟
اسی طرح شادی کے موقعہ پر دلہن کو جو پیسے ملتے ہیں لوگوں کی طرف سے وہ کس کی ملکیت ہیں دلہن کی یا دلہن کے والدین کی؟
والسلام
سائل کا نام: ناز
پتا:کراچی
الجواب حامدۃو مصلية
نابالغ بچوں کو جو تحائف دیے جاتے ہیں اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر دینے والا والدین میں سے سے کسی ایک کی تصریح کر کے دے تو وہ ہی اس تحفہ کا مالک سمجھا جائے گا اور اگر تعیین نہ ہو تو پھر دیکھا جائے گا کہ چیز کس قسم کی ہے؟ نقدی ہے یا عام استعمال کی چیز ہے یا بچوں کے کھلونے ہیں؟ اگر وہ تحفہ رقم یا دوسرے گھریلو استعمال کی چیزوں میں سے ہے جو بچے کے ساتھ خاص نہ ہوں تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ بچے کے والد کی رشتہ داروں کی طرف سے ہدیہ کی گئی ہوں تو والد کی ملک ہوگی اور اگر بچے کی والدہ کی رشتہ داروں کی طرف سے دی گئی تو والدہ کی ملکیت سمجھی جائے گی اور اگر وہ تحائف بچے کی استعمال کی چیزیں مثلا ،کپڑے ، کھلونے ، بستر ، جھولا وغیر ہ ہوں تو ایسی چیزیں بچوں کےلیے خاص ہیں تو وہ بچوں ہی کی ملکیت شمار ہوگی، اب ان چیزوں كو بچوں کی ضروریات ہی میں خرچ کر سکتے ہیں ، والدین سخت مجبوری کے بغیر اس ميں كسي قسم كا تصرف نہیں کرسکتے ہیں نہ اسےبیچ سکتے اور نہ کسی اور کو ہدیہ دے سکتے ہیں اور اگر والدین بچوں کی چیزوں کو کسی کو دینا چاہیں یا اپنے دوسرے بچے کے استعمال میں لانا چاہیں تو اس کا حل یہ ہے کہ والدین اس چیز کو مناسب داموں خرید لیں اور رقم بچے کی ضروریات میں صرف کردے ، پھر اس کےبعد اس میں تصرف کرسکتے ہیں ۔
“واذا أهدي للصبي شيء وعلم انه له: فليس للوالدين الأكل منه بغير حاجة كما في الملتقط ”
(الأشباه والنظائر:339)
” وضعوا هدايا الختان بين يدي الصبي فمايصلح له كثياب الصبيان فالهدية له والا فان المهدي من أقرباء الأب أو معارفه فللاب أو من معارف الأم فللأم”
( الدر المختار : 5/696)
” اتخذ لولده الصغير ثيابا ثم أراد أن يدفع إلى ولد له آخرلم يكن له ذلك ؛ لأنه لما اتخذه ثوباللولد الأول صار ملكا له بحكم العرف فلا يملك الدفع الى غيره”
( تنقيح الفتاوى الحامدية : 5/254)
” كذا الاب لايملك هبة مال الصغيرمن غير شرط العوض بلا خلاف ؛ لأن المتبرع بمال الصغير قربان ماله لا على وجه الأحسن”
(بدائع الصنائع : 13 / 286)
“رجل اشتری لنفسہ من مال ولدہ الصغیر أو استہلک مال ولدہ الصغیر، أو اغتصب حتی وجب علیہ الضمان۔”
(قاضي خان : ۳/ ۳۹۲، الوصایا، فصل في تصرفات الوصي في مال الیتیم وتصرفات الوالد في مال ولدہ الصغیر، زکریا وعلی ہامش الہندیۃ : ۳/ ۵۳۰)
اسی طرح شادی کے موقع پر جوتحائف دیے جاتے ہیں وہ عرفا دلہن کو ہی دیے جاتے ہیں ،لہذا وہ دلہن ہی کی ملکیت ہے ، اس کی اجازت کے بغیر کسی کا اس کو لینا یا اس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے ۔
“عن أبي حمید الساعدي رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا یحل لمسلم أن یأخذ عصًا بغیر طیب نفس منہ۔ قال: ذٰلک لشدۃ ما حرّم اللّٰہ من مال المسلم علی المسلم۔”
(صحیح ابن حبان : ۴۲۱ رقم: ۲۹۰۴ باب الترہیب من غصب الأرض )
“لا یجوز لأحد أن یتصرف في ملک غیرہ بلا إذنہ أو وکالۃ منہ أو ولایۃ علیہ، وإن فعل ذٰلک کان ضامنًا۔ “
(شرح المجلۃ لسلیم رستم باز: 61)
إذ لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔
(شامي : ۶؍۱۰۶ کتاب الحدود ، باب التعزیر، مطلب: في التعزیر بأخذ المال زکریا ،البحر الرائق : ۵؍۶۸ کتاب الحدود ،فصل في التعزیر،زکریا)
” الهدايا التي تأتي في الختان أو الزفاف تكون لمن تأتي باسمه من المختون أ و العروس أو الوالد والوالده، وإن لم يذكر انها وردت لمن ولم يمكن السؤال والتحقيق فعلى ذلك عرف البلد وعادتها”
( درر الأحكام شرح مجلة الأحكام :2/428)
و اللہ سبحانہ اعلم
بقلم : بنت محمود عفی عنہا
قمری تاریخ: ۲۶ شعبان ١٤٣٩ھ
عیسوی تاریخ: ۱۲ مئی ٢٠١٨ ء
تصحیح وتصویب: مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: