سوال: بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ سورۃ الفاتحہ بقیہ قرآن سے الگ ہے ۔ کہ قرآن شریف میں ہے وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ (الآیۃ) اس وجہ سے فاتحہ امام کے پیچھے پڑھنی چاہیے ۔
اور جو آیت ہے کہ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ اس کا فاتحہ پر اطلاق نہیں ہوتا کہ آیت میں قرآن کی تلاوت کے وقت خاموش ہونے کاحکم ہے اور فاتحہ قرآن نہیں ہے ۔
فتویٰ نمبر:83
جواب: سورۃ فاتحہ کے قرآن میں داخل ہونے پر دور نبوی سے لے کر آج تک مسلسل اتفاق واجماع چلا آرہا ہے اورا س کا قرآن ہونا تواتر سے منقول ہے ۔ایسی صورت حال میں محض ایک فرعی مسئلہ میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے کسی قرآنی سورت کو قرآن سے خارج قرار دینا سنگین جرم اور انتہائی جرات اور بے باکی کی بات ہے ، قرآن حدیث پر افترا ہے ، قرآن وحدیث کی غلط اور بے بنیاد تشریح ہے اور واقعتاً اگر یہ ان کا عقیدہ ہے تو فاتحہ جو کہ قرآن ہے اس کو قرآن سے خارج قرار دینے کی وجہ سے ایسے حضرات دائرہا سلام سے خارج ہیں ۔
جہاں تک آیت ” وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ “کا تعلق ہے تو کسی مفسر اور امت کے کسی فرد نے آج تک اس کی وہ تفسیر یں کیں ہیں:
1۔ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي اور الْقُرْآنَ الْعَظِيمَ دونوں سے مارد سورۃ الفاتحہ ہے ۔امام بخاریؒ نے صحیح البخاری ، کتاب التفسیر میں حضرت ابو سعید بن معلی اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے آیت مذکورہ کی یہی تفسیر ذکرکی ہے ۔ ( 3/256 دارالکتب العلمیہ بیروت )
2۔ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي اور الْقُرْآنَ الْعَظِيمَ دونوں سے مراد قرآن کریم ہے آیت میں قرآن کے دو وصف بیان کیے گئے ہیں ۔
3۔۔ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي سے سبع طوال یعنی بقرۃ ، آل عمران، نساء ،مائدۃ ، انعام ،اعراف ،ا ورا نفال وتوبہ مل کر ایک سورت ، یہ ساتھ بڑی سورتیں مراد ہیں ۔ا ورا لقران العظیم سے بقیہ قرآن
4۔۔ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي سے سات حوامیم اور القران العظیم سے بقیہ قرآن مراد ہے ۔
5۔ ۔ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي سے مراد سات امور ہیں :
1۔امر 2،نہی 3،بشارت 4،انذار 5، ضرب الامثال 6۔نعمتوں کا ذکر ، 7، اخبار وقصص
6۔ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي سے مراد سورۃ فاتحہ ہے اور یہی تفسیر زیادہ صحیح اور راجح ہے ۔ (روح المعانی :14/78 دارالفکر ، تفسیر کبیر :10/210 دارالفکر ، تفسیر ابن کثیر :2/577 دارالمعرفہ ، تفسیر ابو سعود :5/88 دارااحیاء التراث العربی ۔ تفسیر کشاف : 2/587،588 مظہری
آخری چار تفسیروں کے مطابق سبعاً من المثانی کے اوپر والقران العظیم کا عطف ، عطف الکل علی الجزء یا عطف العام علی الخاص کی قبیل سے ہے ، دونوں میں مغایرت ہر گز نہیں ہے ۔ اگر بالفرض دونوں میں مغایرت ہے اور اس بنا پر سبعا من المثانی کا مصداق خارج از قرآن ہے تو سبع طوال، حوامیم سبعہ اور امور سبعہ ان سب کو بھی دیگر اقوال کے اعتبار سے خارج از قرآن دینا چاہیے ، حالانکہ یہ حضرت ہر گز اس کے قائل نہ ہوں گے۔
سلف کی تفسیر کے مقابلے میں قرآنی آیت کی کوئی نئی تفسیر وتشریح اور ذاتی اختراع اسی وقت معتبر ہوتی ہے جب وہ قرآن ، حدیث ، آثار صحابہ وتابعین ، اجماع وتواتر ، لغت عرب اور عقل سلیم کے خلاف نہ ہو۔ ان حضرات کی یہ تفسیر عقل ، اجماع وتواتر ، قرآن حدیث اور آچار صحابہ وتابعین سبھی کے بالکل خلاف ہے۔ اس لیے اس کی قطعاً کوئی حیثیت ووقعت نہیں ۔
فی الشامیۃ : ” لان الحق عدم تکفیر اھل القبلۃ ۔۔۔بخلاف من خالف القواطع المعلومۃ بالضرورۃ من الدین ” ۔ ( 3/45، 46 سعید )
وفیہ : “ا ن منکم حکم الامجماع القطعی یکفر عند الحنفیہ ۔” ( 2/5)
وفی فوائد فی علوم الفقہ ۔” وجحد ماھو یقینی منہ ( ای الاجماع ) کفر ” ( ص299ادارۃ القرآن )
وانظر :امدادالفتاوی : 5/ 71۔72)
واللہ سبحانہ وتعالیٰ