فتویٰ نمبر:364
سوال:۵یا چھ مہینے قبل کی بات ہے کہ میرے شوہر میرے ساتھ پردے کے بارے میں بہت زیادہ بحث کررہے تھے دورانِ بحث انہوں نے مجھ سے کسی بات پر کہا کہ ”کیا تم اللہ کو نہیں مانتی ہو محمد ﷺکو نہیں مانتی ہو اور اسلام کو نہیں مانتی ہو ”میں چونکہ ان کی بے فائدہ اور خوامخواہ کی بحث سے بہت زیادہ تنگ آگئی تھی لہٰذا میں نے زِچ ہوکر کہہ دیا کہ ”نہیں میں نہیں مانتی ” پھر انھوں نے کہا ”نہیں مانتی؟” میں نے پھر کہا ”نہیں ” اس پر وہ کہنے لگے “میرا نکاح تم سے ٹوٹ گیا ہے اب دوبارہ نکاح بھی کرنا پڑے گا اور تمہیں دوبارہ قبول اسلام بھی کرنا پڑے گا ۔
ان کی اس بات پر میں بہت پریشان ہوئی اور میں نے کہا “میں اسی وقت کلمہ پڑھتی ہوں آپ مجھ سے ابھی نکاح کرلیں پھر میں نے کلمہ پڑھا اور میری دو نندوں اور ایک دیور کو بٹھا کر خود ہی ایجاب کیا اور مجھ سے تین دفعہ قبول کروایا پھر کہنے لگے اب تم دوبارہ میرے نکاح میں آگئی ہو اب مجھے آپ سے معلوم کرنا ہے کہ :
۱) کیا ایسی صورت میں میں واقعی اسلام سے بے دخل ہوگئی تھی جبکہ خدا گواہ ہے عین اس وقت بھی میرے دل ودماغ میں خدائے پاک کی وحدانیت محمد رسول اللہﷺکی رسالت اور اسلام کی حقانیت راسخ تھی بلکہ مجھے یقین وعقیدہ بھی مکمل تھا اور میں نے یہ الفاظ شوہر کی بے جا بحث سے تنگ آکر کہے تھے ۔
(۲) کیا اس طرح میرے شوہر کا دو نندوں اور ایک دیور کی گواہی میں مجھ سے نکاح کرنا درست تھا ؟ جبکہ مہر بھی مقرر نہیں کیا گیا تھا؟
(۳) میرے شوہر کا اس طرح اسلام کے بارے میں بحث کرنا درست ہے جبکہ انہوں نے کسی مدرسے سے دینی علم حاصل نہیں کیا ۔
(۴) مفتی صاحب ! میں ایک باپردہ عورت ہوں اور گھر میں بڑی بہو ہوں ساس سسر حیات نہیں ہیں نندوں اور دیوروں کی تمام تر ذمہ داری میرے اوپر ہے جس کی وجہ سے میں دیوروں سے ہنسی مذاق تو نہیں کر رہی ہوتی سنجیدہ ہی رہتی ہوں اور نہ ہی غیر ضروری گفتگو کرتی ہوں لیکن میں گھر میں مستقل نقاب میں نہیں رہ سکتی اور اسی وجہ سے میرے شوہر مجھے طرح طرح کی وعیدیں سناتے ہیں کبھی کہتے ہیں ”تمہاری آنکھیں زنا کر رہی ہیں ”اور کبھی کہتے ہیں کہ “تم اچھے کپڑے اس لئے پہنتی ہو کہ تم دوسری شادی کرنا چاہتی ہو “جبکہ میں اچھے کپڑے کہیں شادی وغیرہ میں جاؤں تو پہنتی ہوں ورنہ گھر میں بالکل سادے حلیے میں ہی رہتی ہوں کیونکہ مجھے بھی معلوم ہے کہ دیور غیر محرم ہے اور اس کے سامنے زینت کے ساتھ آنا حرام ہے ۔
مفتی صاحب ! برائے مہربانی اس استفتاء کا جواب ابھی عنایت فرمادیں کیونکہ مجھے آج ہی کسی نے کہا ہے کہ تم اسلام سے خارج ہوگئی تھی اور میاں سے دوبارہ نکاح درست نہیں ہوا جس کی وجہ آج ہی میں نے شوہر سے علیٰحدگی کر لی ہے اور آپ کے جواب آنے تک میں کوئی قدم نہیں اٹھاؤں گی ۔
الجواب حامدا ومصلیا
۱) صورتِ مسؤلہ میں “کیا تم اللہ کو نہیں مانتی ہو محمد ﷺکو نہیں مانتی ہو اسلام کو نہیں مانتی ہو”کے جواب میں عورت کا یہ کہنا کہ “نہیں میں نہیں مانتی ” کلمۂِ کفر ہے اس سے عورت اسلام سے خارج ہوگئی تھی اور نکاح ٹوٹ گیا تھا ۔(۱)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 221):
بَابُ الْمُرْتَدِّ هُوَ…………. (الرَّاجِعُ عَنْ دِينِ الْإِسْلَامِ وَرُكْنُهَا إجْرَاءُ كَلِمَةِ الْكُفْرِ عَلَى اللِّسَانِ بَعْدَ الْإِيمَانِ)………. وَفِي الْفَتْحِ مَنْ هَزَلَ بِلَفْظِ كُفْرٍ ارْتَدَّ وَإِنْ لَمْ يَعْتَقِدْهُ لِلِاسْتِخْفَافِ فَهُوَ كَكُفْرِ الْعِنَادِ.
قَالَ فِي الْمُسَايَرَةِ: وَبِالْجُمْلَةِ فَقَدْ ضُمَّ إلَى التَّصْدِيقِ بِالْقَلْبِ، أَوْ بِالْقَلْبِ وَاللِّسَانِ فِي تَحْقِيقِ الْإِيمَانِ أُمُورٌ الْإِخْلَالُ بِهَا إخْلَالٌ بِالْإِيمَانِ اتِّفَاقًا، كَتَرْكِ السُّجُودِ لِصَنَمٍ……….. وَكَذَا مُخَالَفَةُ أَوْ إنْكَارُ مَا أُجْمِعَ عَلَيْهِ بَعْدَ الْعِلْمِ بِهِ لِأَنَّ ذَلِكَ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ التَّصْدِيقَ مَفْقُودٌ.
(۲) کلمہ پڑھ لینے کے بعد ایک دیور اور دو نندوں کی گواہی میں نکاح کرنے سے نکاح ہوگیا اور آپ دوبارہ مسلمان اور اپنے شوہر کے نکاح میں آگئیں ۔(۲)
جس شخص نے یہ کہا کہ “دوبارہ نکاح درست نہیں ہوا ” بالکل غلط ہے البتہ مہر مقرر نہ کرنے کی وجہ سے شوہر اب مہرِ مثل (خاندان میں رائج مہر) دینے کا پابند ہے ۔(۳)
الفتاوى الهندية (1 / 267):
لا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين.
وفيه ايضا (1 / 304):
وإن تزوجها ولم يسم لها مهرا أو تزوجها على أن لا مهر لها فلها مهر مثلها إن دخل بها أو مات عنها.
۳) اسلام کے بارے میں اس طرح بحث ومباحثہ کرنا شرعا ً صحیح نہیں اس کے بجائے آپ کو دوسری مصروفیات میں مصروف رکھا جائے اور آئندہ اس طرح کرنے سے احتراز کیا جائے ۔
۴) گھر میں موجود دیوروں سے پردہ کرنا شرعا ً ضروری ہے ،جس کی صورت یہ ہے کہ عورت ایسی جگہ جائے ہی نہیں جہاں دیور اور غیر محرم ہوں اور ہر وقت اپنے ساتھ بڑی اوڑھنی یا دوپٹہ رکھے تاکہ اگر گھر کے کام کاج کے دوران آمنا سامنا ہوجائے تو فورا ً اس سے اپنا چہرہ وغیرہ ڈھانپ سکے ،گھر میں مکمل برقعہ کے ساتھ ہر وقت رہنا شرعا ً ضروری نہیں ۔(۴)
اگر سائلہ اس قدر پابندی کرتی ہے پھر بھی اس کا شوہر اس پر شک کرتا ہے تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنی بیوی کے لئے اس گھر میں علیٰحدہ حصہ یا الگ گھر کا حسبِ استطاعت انتظام کردے تاکہ شیطان آپس میں تفریق ڈالنے والے اس طرح کے خیالات دل میں نہ ڈالے(۵)
التخريج
(۱)الفتاوى الهندية (2 / 253):
[الْبَابُ التَّاسِعُ فِي أَحْكَامِ الْمُرْتَدِّينَ]
الْمُرْتَدُّ عُرْفًا هُوَ الرَّاجِعُ عَنْ دِينِ الْإِسْلَامِ كَذَا فِي النَّهْرِ الْفَائِقِ وَرُكْنُ الرِّدَّةِ إجْرَاءُ كَلِمَةِ الْكُفْرِ عَلَى اللِّسَانِ بَعْدَ وُجُودِ الْإِيمَانِ.
البحر الرائق (5 / 129):
[بَابُ أَحْكَامِ الْمُرْتَدِّينَ]
شُرُوعٌ فِي بَيَانِ الْكُفْرِ الطَّارِئِ بَعْدَ الْأَصْلِيِّ وَالْمُرْتَدُّ فِي اللُّغَةِ الرَّاجِعُ مُطْلَقًا وَفِي الشَّرِيعَةِ الرَّاجِعُ عَنْ دِينِ الْإِسْلَامِ كَمَا فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ وَفِي الْبَدَائِعِ رُكْنُ الرِّدَّةِ إجْرَاءُ كَلِمَةِ الْكُفْرِ عَلَى اللِّسَانِ وَالْعِيَاذُ بِاَللَّهِ بَعْدَ وُجُودِ الْإِيمَانِ.
وفیہ ایضاً (3 / 230):
وَارْتِدَادُ أَحَدِهِمَا فَسْخٌ فِي الْحَالِ) يَعْنِي فَلَا يَتَوَقَّفُ عَلَى مُضِيِّ ثَلَاثَةِ قُرُوءٍ فِي الْمَدْخُولِ بِهَا وَلَا عَلَى قَضَاءِ الْقَاضِي.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 193):
(وَارْتِدَادُ أَحَدِهِمَا) أَيْ الزَّوْجَيْنِ (فَسْخٌ) فَلَا يُنْقِصُ عَدَدًا (عَاجِلٌ)
(۲)المبسوط للسرخسي (5 / 32):
يَنْعَقِدُ النِّكَاحُ بِشَهَادَةِ رَجُلٍ وَامْرَأَتَيْنِ عِنْدَنَا.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 255):
وَكَذَا ذُكُورَةُ الشَّاهِدَيْنِ لَيْسَتْ بِشَرْطٍ عِنْدَنَا وَيَنْعَقِدُ النِّكَاحُ بِحُضُورِ رَجُلٍ وَامْرَأَتَيْنِ عِنْدَنَا.
(۳)تبيين الحقائق (2 / 139):
(وَإِنْ لَمْ يُسَمِّهِ أَوْ نَفَاهُ فَلَهَا مَهْرُ مِثْلِهَا) أَيْ وَإِنْ لَمْ يُسَمِّ الْمَهْرَ فِي الْعَقْدِ أَوْ نَفَاهُ فَلَهَا مَهْرُ مِثْلِهَا إنْ وَطِئَ أَوْ مَاتَ عَنْهَا.
الهداية (1 / 199):
” وإن تزوجها ولم يسم لها مهرا أو تزوجها على أن لا مهر لها فلها مهر مثلها إن دخل بها أو مات عنها “
(۴)کتاب الفتاویٰ ۔ص:۳۲۸ج:۴۔زم زم پبلشر۔کفایت المفتی ۔ص:۳۵۵ج:۵۔دارالاشاعت۔
(۵)الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 599):
(وَكَذَا تَجِبُ لَهَا السُّكْنَى فِي بَيْتٍ خَالٍ عَنْ أَهْلِهِ)……. (قَوْلُهُ خَالٍ عَنْ أَهْلِهِ إلَخْ) ؛ لِأَنَّهَا تَتَضَرَّرُ بِمُشَارَكَةِ غَيْرِهَا فِيهِ؛؛ لِأَنَّهَا لَا تَأْمَنُ عَلَى مَتَاعِهَا وَيَمْنَعُهَا ذَلِكَ مِنْ الْمُعَاشَرَةِ مَعَ زَوْجِهَا وَمِنْ الِاسْتِمْتَاعِ إلَّا أَنْ تَخْتَارَ ذَلِكَ؛ لِأَنَّهَا رَضِيَتْ بِانْتِقَاصِ حَقِّهَا هِدَايَةٌ.
البحر الرائق (4 / 210):
(قَوْلُهُ وَالسُّكْنَى فِي بَيْتٍ خَالٍ عَنْ أَهْلِهِ وَأَهْلِهَا) مَعْطُوفٌ عَلَى النَّفَقَةِ أَيْ تَجِبُ السُّكْنَى فِي بَيْتٍ أَيْ الْإِسْكَانُ لِلزَّوْجَةِ عَلَى زَوْجِهَا؛ لِأَنَّ السُّكْنَى مِنْ كِفَايَتِهَا فَتَجِبُ لَهَا كَالنَّفَقَةِ، وَقَدْ أَوْجَبَهَا اللَّهُ تَعَالَى كَمَا أَوْجَبَ النَّفَقَةَ بِقَوْلِهِ تَعَالَى {أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ} [الطلاق: 6] أَيْ مِنْ طَاقَتِكُمْ أَيْ مِمَّا تُطِيقُونَهُ مِلْكًا أَوْ إجَارَةً أَوْ عَارِيَّةً إجْمَاعًا، وَإِذَا وَجَبَتْ حَقًّا لَهَا لَيْسَ لَهُ أَنْ يُشْرِكَ غَيْرَهَا فِيهِ؛ لِأَنَّهَا تَتَضَرَّرُ بِهِ فَإِنَّهَا لَا تَأْمَنُ عَلَى مَتَاعِهَا وَيَمْنَعُهَا ذَلِكَ مِنْ الْمُعَاشَرَةِ مَعَ زَوْجِهَا وَمِنْ الِاسْتِمْتَاعِ إلَّا أَنْ تَخْتَارَ؛ لِأَنَّهَا رَضِيَتْ بِانْتِقَاصِ حَقِّهَا.