فتویٰ نمبر:4064
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
اکثر لوگ مثال کہتے ہیں نعوذ باللہ کہ (نمازیں بخشوانے گئے تھے روزے گلے پڑگئے) کیا یہ مثال دینا صحیح ہے؟ یا یہ کہنے سے خارج اسلام کا خطرہ ہوتا ہے مہربانی کر کے رہنمائی فرمادیں۔
والسلام
الجواب حامدا ومصليا
اس طرح کی گفتگو اِسلام کی بُنیادی عبادات کے متعلق گُستاخانہ تصور کی جاتی ہے۔ اس طرح کی من گھڑت کہاوتیں اسلام دُشمنوں نے ناخواندہ اور کم پڑھے لکھے مسلمانوں کو دین سے دُور کرنے کے لیے رائج کی ہیں، جنھیں لوگ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اپنی گفتگو کا حصہ بنا لیتے ہیں اور کم علمی اور جہالت کی بنا پر کفر کی حد تک چلے جاتے ہیں۔
اس طرح کی گفتگو سے اجتناب انتہائی ضروری ہے، مگر اس طرح کی گفتگو کرنے والا اگر نادانی ،کم علمی یا غفلت میں اس طرح کے کلمات کہہ بیٹھے تو اسلام سے خارج نہیں ہوگا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
“قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ لا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ”.
(التوبة:65-66)
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
“مَنْ صَلَّى صَلاَتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا ، وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا فَذَلِكَ المُسْلِمُ الَّذِي له ذِمَّةُ اللَّه وَذِمَّةُ رَسُولِهِ ، فَلاَ تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي ذِمَّتِهِ.
( رواه البخاري، کتاب الصلاة: 387)
قال ملا علي قاري: “وقد ذكروا أن المسئلة المتعلقة بالكفر اذا كان لها تسع وتسعون احتمالا للكفر واحتمال واحد في نفيه فالأولىللمفتي والقاضي أن يعمل بالاحتمال النافي، لان الخطاء في إبقاء الف كافر أهون من الخطاء في افناء مسلم واحد”.
(شرح الفقه الاكبر: ١٩٩)
في الدر المختار: ” واعلم انه لا يفتى بكفر مسلم امكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره خلاف ولو كان ذلك رواية ضعيفة”.
(إمداد المفتيين، فصل في تكفير المسلمين:1/108)
واللہ الموفق
قمری تاریخ: 22/6/1440
عیسوی تاریخ: 27/2/2019
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: