کیا حج کے مہینےمیں عمرہ کرنےسے حج فرض ہوجاتاہے

  دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:163

الجواب حامداومصليا

١ ۔ اس سلسلہ میں عمر کا موقف درست ہے، جیسا کہ امدادالا حکام جلد دوم میں اس کی تفصیل موجود ہے تاہم مروجہ شکل  میں تبلیغ حالات زمانہ کے لحاظ سے بہت مفید اورنتائج  کے لحاظ سے بہت ہی مناسب ہے ،تاہم اس کو اس شکل اور اس ترتیب کے ساتھ ضروری قراردینایاسنت ومستحب قرار دینا درست نہیں ، جیسا کہ مروجہ شکل میں  علم  دین کا حصول ہے۔

٢۔خالص کالے رنگ کے علاوہ دوسرے رنگ کا خضاب استعمال کرنا جائز ہے، اورخالص  کا لے رنگ کے خضاب میں تفصیل ہے کہ اگر:

الف: مجاہد لگائے ، تو جائز ہے

ب :کسی کو دھوکہ دینے کے لئے لگائے ، تو حرام اور نا جائز ہے۔

ج:زینت کے لئے تا کہ بیوی خوش ہو جائے ، یہ مفتی بہ قول  کے مطابق مکروہ  ہے۔

تاہم اگر طبعی عمر سے پہلے کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے کسی کے بال سفید ہو جائیں، اس کے لئے کالے خضاب کی بھی گنجائش ہے۔

۳۔اس مسئلہ  کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ دونوں طریقے درست ہیں ان  میں کسی کو بدعت کہنا درست نہیں، کیونکہ دوسرے طریقہ کو بھی علماء کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے، تاہم یہ سنت  نہیں ،بہتر اور سنت پہلا والاطریقہ ہے، جیسا کہ فتح القدیر میں اس کو مسنون کہا ہے۔

والمسنون في كيفية المسح أن يضع كفيه واصابعه علی مقدم رأسه آخذا إلى قفاه على وجه يستوعب ثم يمسح اذنيه على مايذكره الخ (۱۲ / ۱ ) والله تعالی اعلم

 عصمت اللہ عصمہ اللہ

١٨/٤/٢٨ ھ

الجواب حامدا ومصليا

(1) اشہر حج میں عمرہ کرنے سے حج فرض ہونے کا کوئی لازمی تعلق نہیں ہے، بلکہ اس کا مدار اس بات پر ہے کہ اگر کوئی شخص اشہرحج یعنی شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں مکہ مکرمہ یا میقات پر موجود ہو اور اس کے پاس ایام حج تک قیام و طعام کا خرچہ بھی موجود ہو اور کم از کم عرفات تک پیدل حج کرنے کی استطاعت بھی رکھتا ہو اور اس نے پہلے حج فرض بھی نہ کیا ہو تو ایسے شخص پر حج فرض ہو جاتا ہے اور اگر حکومت اس کو وہاں ٹھہرنے کی  اجازت نہ دے تو فرضیت حج میں اختلاف ہے ،راجح یہ ہے کہ اس پر حج فرض ہو جاتا ہے اور اگر ایسی صورت میں حج نہیں کیا اور پھر آخری زندگی تک حج کرنے کا موقع نہ ملا تو حج بدل کر انا یا مرنے کے وقت حج بدل کرانے کی وصیت کرناواجب ہے، اگر حج بدل کرانے کے بعد خود حج کرنے کی استطاعت ہو جائے تو دوباره خودحج کرے ، لیکن اگر پہلے جو حج فرض کر چکا ہو تو دوبارہ حج فرض نہیں ہو گا۔ (ماخذہ التبویب ٣٧:٣٤٠)

لمافی الدرالمختار(۴۵۹: ۲ )

“(صحیح البدن ( يصير ) غير محبوس وخائف من سلطان يمنع منه”

 وفي الشامية

“قوله ( صحیح البدن ) أي سالم عن الآفات المانعة عن القيام بما لا بد منه في السفر فلا يجب على مقعد ومفلوج وشبخ كبير لا يثبت على الراحلة بنفسه وأعمى وإن وجد قائدا ومحبوس وخائف من سلطان لا بأنفسهم ولا بالنيابة في ظاهر المذهب عن الإمام وهو رواية عنهما وظاهر الرواية عنهما وجوب الإحجاج عليهم ويجزيهم إن دام العجز وإن زال أعادوا بأنفسهم والحاصل أنه من شرائط الوجوب عنده ومن شرائط وجوب الأداء عندهما وثمرة الخلافي تظهر في وجوب الإحجاج والإيصاء كما ذكرنا وهو متبد ما إذا لم يقدر على الحج وهو صحيح فإن قدر ثم عجز قبل الخروج إلى الحج تقرير دينا في نته فيلزمه الإحجاج فلو خرج ومات في الطريق لم يجب الإيصاء لأنه لم يؤخر بعد الإنجاب ولو تكلفوا الحج بانفسهم سقط عنهم وظاهر التحفة اختبار قوشما وكذا الإيجابي وقواه في الفتح ومشى على أن الصحة من شرائط وجوب الأداء اه من البحر و النهر وحكي في اللباب اختلاف التصحيح وفي شرحه أنه مشى على الأول في النهاية وقال في البحر العميق إنه المذهب الصحيح وإن الشانتي صححه قاضيخان في شرح الجامع واختاره كثير من المشايخ ومنهم ابن الهمام”

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی 

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/656205708082011/

اپنا تبصرہ بھیجیں