کیا گھر کو طلاق دینے سے بیوی کو طلاق ہو جاتی ہے؟

فتویٰ نمبر:4061

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

مسئلہ : 

(1) ایک صاحب نے چھ، سات سال پہلے بیوی سے جھگڑے کے دوران غصے کی حالت میں گھر سے نکلتے ہوئے کہا کہ اگر اس وقت بچے میرے ساتھ گھر سے باہر نہ گئے تو اس گھر پر طلاق ہو۔ ان کا کہنا ہے میں نے یہ الفاظ سوچ سمجھ کر نہیں ادا کئے نہ کہ بیوی کا خیال ذہن میں لا کر منہ سے نکالے بس غصے کی شدت میں کہا 

(2) اور یہ بولنے کے بعد ایک بچہ انکے ساتھ گیا اور ایک بچہ گھر میں ہی رہا اور یہ الفاظ کی ادائیگی کے وقت بیوی سامنے موجود نہ تھی اب کیا ایسی صورت میں طلاق ہو گئی؟ اگر ہاں تو اس واقعے کے بعد انکے یہاں ایک بیٹی کی ولادت بھی ہوئی اسکا کیا حکم ہو گا؟

برائے مہربانی تفصیلی جواب درکار ہے

والسلام

لجواب حامداً و مصلياً

(1) مذکورہ صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔کیونکہ طلاق کے شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس کو طلاق دی جا رہی ہے وہ طلاق کا محل ہو،جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس شخص کی منکوحہ(عورت) ہو۔لیکن یہاں یہ شرط نہیں پائی جا رہی اورگھر پر طلاق نہیں پڑتی طلاق صرف شوہر اپنی منکوحہ کو دے سکتا ہے ،یا غیر منکوحہ کی طرف نکاح کی نسبت کر کے دے سکتا ہے. 

(2) جب یہ ثابت ہو گیا کہ بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی تھی تو دوسرے سوال کا جواب بھی خود بخود نکل آیا کہ ان کی بیٹی حلال اور جائز ہے۔

“(وَمَحَلُّهُ الْمَنْكُوحَةُ)۔۔۔وفی رد المختار فی تفسیرہ:” (قَوْلُهُ وَمَحَلُّهُ الْمَنْكُوحَةُ) أَيْ وَلَوْ مُعْتَدَّةً عَنْ طَلَاقٍ رَجْعِيٍّ أَوْ بَائِنٍ غَيْرِ ثَلَاثٍ فِي حُرَّةٍ وَثِنْتَيْنِ فِي أَمَةٍ أَوْ عَنْ فَسْخٍ بِتَفْرِيقٍ لِإِبَاءِ أَحَدِهِمَا عَنْ الْإِسْلَامِ أَوْ بِارْتِدَادِ أَحَدِهِمَا”

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار):3/230،کتاب الطلاق،فصل محل الطلاق)

“(فَصْل) وَأَمَّا الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمَرْأَةِ فَمِنْهَا الْمِلْكُ أَوْ عَلَقَةٌ مِنْ عَلَائِقِهِ؛ فَلَا يَصِحُّ الطَّلَاقُ إلَّا فِي الْمِلْكِ أَوْ فِي عَلَقَةٍ مِنْ عَلَائِقِ الْمِلْكِ وَهِيَ عِدَّةُ الطَّلَاقِ أَوْ مُضَافًا إلَى الْمِلْكِ.”

(البدائع والصنائع:3/126،کتاب الطلاق،فصل في شَرَائِط رُكْن الطَّلَاق وبعضها يَرْجِعُ إلَى الْمَرْأَةِ”المکتبہ الشاملہ “

“(قَوْلُهُ إنَّمَا يَصِحُّ فِي الْمِلْكِ كَقَوْلِهِ لِمَنْكُوحَتِهِ إنْ زُرْت فَأَنْت طَالِقٌ أَوْ مُضَافًا إلَيْهِ كَأَنْ نَكَحْتُك فَأَنْت طَالِقٌ) أَيْ مُعَلَّقًا بِسَبَبِ الْمِلْكِ كَقَوْلِهِ لِأَجْنَبِيَّةٍ إنْ نَكَحْتُك أَيْ تَزَوَّجْتُك فَإِنَّ النِّكَاحَ سَبَبٌ لِلْمِلْكِ فَاسْتُعِيرَ السَّبَبُ لِلْمُسَبَّبِ”

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري:4/4،کتاب الطلاق، المکتبہ الشاملہ)

“الْأَيْمَانُ مَبْنِيَّةٌ عَلَى الْأَلْفَاظِ لَا عَلَى الْأَغْرَاضِ، أَيْ الْمَقَاصِدِ وَالنِّيَّاتِ، احْتَرَزَ بِهِ عَنْ الْقَوْلِ بِبِنَائِهَا عَلَى النِّيَّةِ. فَصَارَ الْحَاصِلُ أَنَّ الْمُعْتَبَرَ إنَّمَا هُوَ اللَّفْظُ الْعُرْفِيُّ الْمُسَمَّى، وَأَمَّا غَرَضُ الْحَالِفِ فَإِنْ كَانَ مَدْلُولَ اللَّفْظِ الْمُسَمَّى اُعْتُبِرَ وَإِنْ كَانَ زَائِدًا عَلَى اللَّفْظِ فَلَا يُعْتَبَرُ۔”

( الدر المختار وحاشية ابن عابدين :3/ 743)

تطبیقات:

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:20 جمادی الثانی،1440ھ

عیسوی تاریخ:26 فروری،2019ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں