کیا اذان کا جواب دینا فرض ہے؟

سوال: اذان کا جواب دینا فرض ہے ؟

جواب :اذان کے جواب دوقسم کے ہوتے ہیں:

1. عملی جواب یعنی اذان سنے کے بعد عملی طور پر نماز پڑھنے کے لیے مسجد جانا یا نماز کے کی تیاری میں لگنا ،یہ جواب واجب ہے ۔

2.قولی جواب یعنی اذان کے کلمات کو دہرانا،یہ مستحب ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ اذان میں حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں “لاحول ولاقوۃ الاباللہ”کہا جائے گا۔

حوالہ جات:

1….”عن أبي سعيد الخدري: أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: إذا سمعتم النداء، فقولوا مثل ما يقول المؤذن“

ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب تم اذان سنو ،تواس کی مثل جواب دو جو مؤذن کہتا ہے۔

(صحیح البخاری،کتاب الاذان،جلد01،صفحہ126

2….”وَعَنْ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ فَقَالَ أَحَدُكُمُ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مِنْ قَلْبِهِ دخل الْجنَّة» .

ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مؤذن ﷲ اکبر ﷲ اکبر کہے، اور تم میں سے کوئی اس کے جواب میں ﷲ اکبر ﷲ اکبر کہے، پھر مؤذن اشھدان لا الہ الا ﷲ کہے، اور یہ شخص بھی اشہدان لا الہ الا ﷲ کہے، پھر مؤذن اشہدان محمدا رسول ﷲ کہے، یہ شخص بھی اشہدان محمدا رسول ﷲ کہے، پھر مؤذن حی علی الصلوۃ کہے، یہ شخص لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہے، پھر مؤذن حی علی الفلاح کہے، یہ شخص لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہے، پھر مؤذن ﷲ اکبر ﷲ اکبر کہے، تو یہ شخص بھی ﷲ اکبر ﷲ اکبر کہے، پھر مؤذن لا الہ الا ﷲ کہے تو یہ شخص صدقِ دل سے لا الہ الا ﷲ کہے، تو یہ (جواب دینے والا) جنت میں جائے گا رَوَاهُ مُسلم”. (مشکاة، باب فضل الأذان و إجابة المؤذن حدیث مبارکہ نمبر 623)

3…وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ؛ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَاتَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ وَ أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ فَمَنْ سَأَلَ لِيَ الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ.

ترجمہ: حضرت عبدﷲ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں: فرمایا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے: جب تم مؤذن کو سنو تو تم بھی وہی الفاظ کہو جو وہ کہہ رہا ہے، پھر مجھ پر درود بھیجو ؛ کیوں کہ جو مجھ پر ایک درودبھیجتاہے ﷲ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ پھر ﷲ سے میرے لیے وسیلہ مانگو وہ جنت میں ایک درجہ ہے جو ﷲ کے بندوں میں سے ایک ہی کے مناسب ہے مجھے امید ہے کہ وہ میں ہی ہوں گا، جو میرے لیے وسیلہ مانگے اس کے لیے میری شفاعت لازم ہے۔

رَوَاهُ مُسلم”. (مشکاة، باب فضل الأذان و إجابة المؤذن حدیث مبارکہ نمبر 622)

==========

کتب فقہ

1… قال: فی الشامی ای قال: الحلوانی ان الإجابة بالسان مندوبة والواجبة بالقدم(رد المحتار باب الاذان 396/1)

2… في الدر من سمع الأذان بأن یقول کمقالتہ أی بلسانہ․․․ فیقطع قراء ة القرآن لو کان یقرأ بمنزلہ ویجیب لو أذان مسجدہ ․․․ قال في الفتح ․․․ أي موٴذن یجیب باللسان استحبابا أو وجوبًا والذی ینبغي إجابة الأول سواء کان موٴذن مسجدہ أو غیرہ (۱/۲۹۴، الدر مع الرد

3….اذان کے وقت اذان کا جواب دینا چاہیے، باتیں بند کردینا چاہیے، یہ طریقہ ناپسند ہے کہ باتیں ہوتی رہیں اوراذان کا جواب نہ دیا جائے، مگر یہ بات غلط ہے کہ ایسے شخص کو مرتے وقت کلمہ نصیب نہ ہوگا۔ (فتاویٰ محمودیہ: ۵/۴۲۹)

واللّٰه تعالى أعلم بالصواب

24دسمبر2021ء

20 جمادی الثانی 1443ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں