کیا عورت نقاب میں نماز پڑھ سکتی ہے؟

فتویٰ نمبر:1025

سوال:اگر بازار میں ہوں نماز کا وقت ہوجائے اور جہاں نماز کی جگہ ہو خواتین کے لئے وہاں کھڑکی بھی ہو جس کے سامنے مزدور کام کر رہےہوں تو کیا ہم منہ سے نقاب ہٹائے بنا نماز پڑھ سکتے ہیں ؟

بنت میمون

اسلام آباد

الجواب بعون الملک الوھاب

واضح رہے کہ نماز میں جو یہ حکم ہے کہ عورت کا پورا جسم ستر ہے سوائے اس کے چہرے،دونوں ہاتھوں اور دونوں قدموں کے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ نماز میں ان کا کھلا رکھنا ضروری ہے ،یا یہ نماز کی شرائط میں سے ہیں کہ ان کے کھلے رکھے بغیر نماز ہی نہ ہوگی۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان تینوں اعضا کا دوران نماز کھلے رہنا فساد نماز کا باعث نہیں۔کیونکہ اگر اس کا مطلب یہ ہوتا کہ عورت کے لیے ان تین اعضا کا کھولنا دوران نماز ضروری ہے تو پھر تو جرابوں اور دستانوں میں بھی نماز درست نہ ہوتی۔پھر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ صرف احرام میں عورت کے چہرے پر کپڑے کا نہ لگنا ضروری ہے،اس کا حکم نماز میں نہیں لگا سکتے ۔ کیونکہ نماز اور احرام میں فرق ہے۔

حاصل یہ ہے کہ جس طرح نماز پڑھنا فرض ہے اسی طرح عورت کے لیے چہرے کا پردا بھی لازم اور فرض ہے۔لہٰذا سوال میں مذکورہ صورت میں عورت کے لیے نقاب ہٹانا ضروری نہیں،بلکہ نقاب کے ساتھ ہی نماز پڑھنا چاہیے۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (احزاب:59)

“وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا”(سورۃ النور:31)

“عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أن أسماء بنت أبي بکر دخلت علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعلیہا ثیاب رقاق، فأعرض عنہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقال: یا أسماء إن المرأۃ إذا بلغت المحیض لم یصلح لہا أن یری منہا إلا ہٰذا وہٰذا، وأشار إلی وجہہ وکفیہ۔ “

(سنن أبي داؤد، کتاب اللباس / باب فیما تبدي المرأۃ من زینتہا ۲؍۵۶۷ رقم: ۴۱۰۴ دار الفکر بیروت)

“وفي الأمۃ ثمانیۃ أیضا: الفخذان مع الرکبتین والإلیتان والقبل مع ماحولہ والدبر کذٰلک والبطن والظہر مع ما یلیہما من الجنبین، وفي الحرۃ ہذہ الثمانیۃ ویزاد فیہا ستۃ عشر: الساقان مع الکعبین والثدیان المنکسران والأذنان والعضدان مع المرفقین والذراعان مع الرسغین والصدر والرأس والشعر والعنق وظہر الکفین وینبغي أن یزاد فیہ الکتفان۔ “

(شامي ۲؍۷۵ بیروت، شامي ۲؍۸۳ زکریا)

وفي التنویر: وللحرۃ جمیع بدنہا خلا الوجہ والکفین والقدمین۔ 

(التنویر مع الشامي ۲؍۷۱ بیروت، شامي ۲؍۷۸ زکریا)

“فظہر الکف عورۃ علی المذہب۔ (درمختار) وفي الشامي: أي ظاہر الروایۃ، وفي مختلفات قاضی خان وغیرہا أنہ لیس بعورۃ، وأیدہ في شرح المنیۃ بثلاثۃ أوجہ، وقال: فکان ہو الأصح وإن کان غیر ظاہرالروایۃ۔ 

(شامي ۲؍۷۸ زکریا)

“وَتُمْنَعُ الْمَرْأَۃُ الشَّابَّۃُ مِنْ کَشْفِ الْوَجْہِ بَیْنَ رِجَالٍ، لَا لأَنَّہٗ عَوْرَۃٌ بَلْ لِخَوْفِ الْفِتْنَۃِ”

(الدرّالمختار: باب شروط الصلٰوة)

فقط واللہ تعالی اعلم بالصواب

بنت ممتاز غفر اللہ لھا

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر،کراچی

1439ھ-7-6/2018ء-3-23

اپنا تبصرہ بھیجیں