ایک واعظ صاحب نے اپنے وعظ کے دوران یہ روایت بیان کی کہ :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ : آپ کے انتقال کے بعد آپ کی نماز جنازہ کون پڑھائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم لوگ میری تغسیل وتکفین سے فارغ ہوجاؤ ، تو مجھے چار پائی پر لٹاکر مسجد سے باہر نکل جانا ، اس لئے کہ میری نماز جنازہ سب سے پہلے اللہ تعالی پڑھیں گے ، پھر فرشتے ۔۔۔الخ
مجھے یہ دریافت کرنا ہے کہ کیا یہ روایت اس طرح سےصحیح ہے کہ اللہ تعالی نے حضور کی نماز پڑھی؟
الجواب :
یہ روایت تفسیر حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں تین صحابہ کرام سے منقول ہے :حضرت جابر بن عبد اللہ ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہم ۔ لیکن ان روایتوں کی اسانید سب شدید الضعف بلکہ موضوع ومن گھڑت ہیں ، ان میں سے کوئی بھی روایت قابل اعتبار نہیں ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے :
۱۔ حضرت جابر بن عبد اللہ وابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کا حال :
اس روایت کی تخریج امام طبرانی نے (المعجم الکبیر ۳/۵۸) میں ، اور ان کے واسطےسے امام ابونعیم نے (حلیہ۴/۷۳)میں ،اور امام ابن الجوزی نے(الموضوعات۱/۲۹۵)میں کی ہے، جس کی اسانیدکا دار ومدار ( عبدالمنعم بن ادریس بن سنان صنعانی عن ابیہ ) ہے ، اور یہ بڑی طویل روایت ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال تجہیز تکفین نماز جنازہ اور تدفین وغیرہ کےطریقہ کی تفصیل ہے ۔
لیکن عبد المنعم بن ادریس پر ائمہ حدیث نے شدیدجرح کی ہے ، اور اس پر روایات گھڑنے کی تہمت صاف لفظوں میں لگائی ہے ، چند جروحات کا ملاحظہ فرمائیں :
احمد بن حنبل نے کہا : (کان یکذب علی وھب) : وھب بن منبہ پر جھوٹ بولتا تھا۔
یحیی بن معین نے کہا : (خبیث کذاب) : ناپاک اور جھوٹاہے۔
ابن المدینی اور ابوداود نے کہا : (لیس بثقہ) : اعتماد کرنے کے لائق نہیں ہے ۔
عقيلی نے کہا : (ذاهب الحديث) : اس کی احادیث ساقط الاعتبار ہیں ۔
ابن حبان نے کہا : (يضع الحديث علی ابیہ وعلى غيره) : اپنے والدپر اور دوسروں پر بھی روایتیں گھڑتاہے ۔
دارقطنی نے کہا : (هو وأبوه متروكان) : عبدالمنعم اور اس کا باپ دونوں کی روایات متروک ہیں ۔
اور یہ روایت جن محدثین نے ذکر کی ہےتو اس کو موضوع قرار دینے کے ساتھ اس کے گھڑنے کی تہمت بھی عبدالمنعم ہی پر لگائی ہے ، جیسے امام ابن الجوزی ذہبی سیوطی وغیرہم ممن اتی بعدہم نےکہا ہے ۔
اسی طرح عبدالمنعم کے والد (ادریس بن سنان ) پر جرح کیا ہے ، دارقطنی نے متروک کہا ، اور ابن حبان نے کہا : ( يتقى حديثہ من روایۃ ابنہ عبد المنعم عنہ ) : اس کی روایتوں میں سے اس کے بیٹے عبدالمنعم کے واسطے سے منقول روایتوں سے خاص طور پر اجتناب کیا جائے۔
انظر : الضعفاءوالمتروكين لابن الجوزی ۲/۱۵۴،وميزان الاعتدال ۲/۶۶۸،ولسان المیزان۴/۷۳، الضعفاء للدارقطنی ۲/۱۶۳، المجروحین لابن حبان ۲/۱۵۷ ۔
بعض علماء حدیث کے اس روایت کے بارے میں اقوال :
قال ابن الجوزی : (هذا حديثٌ موضوع مُحالٌ ، كافأ الله من وضعه، وقبَّحَ مَن يَشِينُ الشريعة بمثل هذا التخليط البارد، والكلام الذي لا يليق برسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ولا بالصحابة، والمتَّهمُ به عبد المنعم بن إدريس) الموضوعات۱/۲۹۵۔
وقال الذھبی : ( هذا الحديث موضوع. وأراه من افتراءات عبد المنعم) العلو للعلی الغفار ص۴۳۔
وقال الالبانی : (موضوعٌ.ليس عليه بهاءُ كلام النبوة والرسالة، بل إن يد الصَّنع والوضع عليه ظاهرة) ۔سلسلۃ الأحاديث الضعيفہ ۱۳/۹۹۸ ۔
خلاصہ یہ ہے کہ : یہ روایت بلکل ساقط الاعتبار ہے ، کسی درجہ میں بھی قابل قبول نہیں ہے ، اور اس کے الفاظ سے واضح ہوتاہے کہ یہ روایت بنی بنائی من گھڑت ہے، ایک بات اور قابل تنبیہ ہے کہ : اللہ تعالی کے نماز پڑھنے کی جو بات ہے وہ صرف عبدالمنعم بن ادریس والی روایت میں ہی ہے ، جس کے الفاظ طبرانی کی روایت میں اس طرح ہیں ) :فَإِذَا أَنْتُمْ وَضَعْتُمُونِي عَلَى السَّرِيرِ فَضَعُونِي فِي الْمَسْجِدِ وَاخْرُجُوا عَنِّي، فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ يُصَلِّي عَلَيَّ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ فَوْقِ عَرْشِهِ، ثُمَّ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، ثُمَّ مِيكَائِيلُ، ثُمَّ إِسْرَافِيلُ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ، ثُمَّ الْمَلَائِكَةُ زُمَرًا زُمَرًا )۔
۲۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کا حال :
اس روایت کا دار ومدار اکثر اسانید وطرقِ حدیث میں : عبد الملک بن عبد الرحمن ابن الاصبہانی پرہے ، ابن الاصبہانی سے لےکر سند آخر تک اس طرح ہے : ( عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ الْأَصْبَهَانِيِّ، ثنا خَلَّادٌ الصَّفَّارُ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ طَلِيقٍ، عَنِ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ، عَنْ مُرَّةَ بنِ شَرَاحِيل الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ) ۔ ابن الاصبہانی مجہول راوی ہے ، بلکہ امام فلاس نے اس کو جھوٹا بھی قرار دیا ہے ، جیساکہ ذہبی نے لکھا ہے ۔ اسی طرح اشعث بن طلیق بھی مجہول الحال راوی ہے ۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت مختلف اسانید سے مذکورہ ذیل کتب حدیث میں وارد ہے :
المعجم الاوسط ۴/۲۰۸، کتاب الدعاء برقم۱۲۱۹،مسندبزار برقم۲۰۲۸،مسند احمد بن منیع (المطالب العالیہ۱۷/۵۳۸)،تاریخ طبری ۳/۱۹۱ ، مستدرک حاکم۳/۶۰ ، بیہقی کی دلائل النبوہ ۷/۲۳۱، حلیۃ الاولیاء ۴/۱۶۸ ۔ اور ایک منفرد سند سے ابن سعد نے الطبقات الکبری ۲/۲۵۶ میں بطریق واقدی ذکر کی ہے ۔
لیکن ابن مسعود کی روایت میں اللہ تعالی کے نماز پڑھنے کے الفاظ نہیں ہیں ، بلکہ متن حدیث اس طرح ہے : ( فَأَوَّلُ مَنْ يُصَلِّي عَلَيَّ خَلِيلِي وَجَلِيسِي جِبْرِيلُ، ثُمَّ مِيكَائِيلُ، ثُمَّ إِسْرَافِيلُ، ثُمَّ مَلَكُ الْمَوْتِ وَجُنُودُهُ مِنَ الْمَلَائِكَةِ بِأَجْمَعِهَا…الخ ) ۔ اس لئے اس حدیث میں زیر بحث مسئلہ کی دلیل نہیں ہے ۔
حاصل یہ ہے کہ :
یہ حدیث معتبر نہیں ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی نہیں ہے ، اور نہ اس کے الفاظ میں وہ رونق ہے جو الفاظ نبوت میں ہوتا ہے ، غالب گمان یہ ہے کہ بعض مجاہیل ِ رواۃ نے یہ پوری کہانی تیار کی ہے ، پھر ضعفاء رواۃ نے اس کی تشہیر کی ہے ۔
اس لئے اس روایت کو بیان کرنے سے احتیاط کرنا چاہئے ، خصوصا وہ الفاظ جس میں اللہ تعالی کے نماز پڑھنے کا ذکر ہے ۔