سوال: ایک شخص نے بیوی سے بغیر لفظ طلاق بولے ایک دو تین کہا کیا حکم ھے؟
جواب:واضح رہے کہ ایک ،دو، تین کی اصل وضع گنتی کیلئے ہے ،جن سے طلاق کی گنتی بھی کی جاسکتی ہے اور غیر طلاق کی بھی، یہ الفاظ بذات خود طلاق دینے کیلئے موضوع نہیں ہےاس لئے محض اعداد کی وجہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ،بلکہ ان سے طلاق واقع ہونے کیلئے ضروری ہے کہ:
(۲) یا ان اعداد کے ساتھ کوئی ایسا لفظ ہو جس سے ان اعداد کی صراحۃ ً اضافت بیوی کی طرف ہو مثلاً یہ کہے ’’تجھےمیری طرف سے ایک دو تین ‘‘چنانچہ اس صورت میں تجھے کی اضافت کی وجہ سے ان اعداد کا حکم کنایات طلاق کا ہوگا ،اور اگر یہ الفاظ طلاق کی نیت سے یا مذاکرہ طلاق کے وقت کہے ہوں تو اس کے مطابق طلاق کا حکم لگایا جائیگا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (3 / 287)
(قَوْلُهُ وَالطَّلَاقُ يَقَعُ بِعَدَدٍ قُرِنَ بِهِ لَا بِهِ) أَيْ مَتَى قُرِنَ الطَّلَاقُ بِالْعَدَدِ كَانَ الْوُقُوعُ بِالْعَدَدِ بِدَلِيلِ مَا أَجْمَعُوا عَلَيْهِ مِنْ أَنَّهُ لَوْ قَالَ لِغَيْرِ الْمَدْخُولِ بِهَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا طَلُقَتْ ثَلَاثًا، وَلَوْ كَانَ الْوُقُوعُ بِطَالِقٍ لَبَانَتْ لَا إلَى عِدَّةٍ فَلَغَا الْعَدَدُ، وَمِنْ أَنَّهُ لَوْ قَالَ أَنْتِ طَالِقٌ وَاحِدَةً إنْ شَاءَ اللَّهُ لَمْ يَقَعْ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ الْوُقُوعُ بِطَالِقٍ لَكَانَ الْعَدَدُ فَاصِلًا فَوَقَع ۔
البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (3 / 280)
وَلَوْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ أَنْت مِنِّي بِثَلَاثٍ وَنَوَى الطَّلَاقَ طَلُقَتْ لِأَنَّهُ نَوَى مَا يَحْتَمِلُهُ، وَإِنْ قَالَ لَمْ أَنْوِ الطَّلَاقَ لَمْ يُصَدَّقْ إنْ كَانَ فِي حَالَةِ مُذَاكَرَةِ الطَّلَاقِ لِأَنَّهُ لَا يَحْتَمِلُ الرَّدَّ وَلَوْ قَالَ أَنْت بِثَلَاثٍ وَأَضْمَرَ الطَّلَاقَ يَقَعُ كَأَنَّهُ قَالَ أَنْت طَالِقٌ بِثَلَاثٍ كَذَا فِي الْمُحِيطِ وَظَاهِرُهُ أَنَّ أَنْتِ مِنِّي بِثَلَاثٍ وَأَنْتِ بِثَلَاثٍ بِحَذْفِ مِنِّي سَوَاءٌ فِي كَوْنِهِ كِنَايَةً وَأَمَّا أَنْتِ الثَّلَاثُ فَلَيْسَ بِكِنَايَةٍ.
خلاصة الفتاوی۔(۲/۸۷)
وكذالوقال’’اگرفلانہ بزنی كنم از من بيك طلاق و دو طلاق وسہ طلاق‘‘ فتزوجها تطلق واحدة ولو قال’’بيكےو دو وسہ طلاق‘‘ ثم تزوجها يقع الثلا ث و تمام هذا في خزانة الواقعات ۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب