متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن مدظلہ
بعض لوگ دینی معاملات میں مرد وعورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے. حالانکہ مرد وعورت کے طریقہ عبادت میں فرق کا ہونا عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے۔
عبادات دو طرح کی ہیں:
نمبر 1:بدنیہ: جن کا تعلق انسان کے بدن کے ساتھ ہے.
نمبر2:مالیہ: جن کا تعلق مال کے ساتھ ہے.
مرد وعورت کے چونکہ مال میں فرق نہیں یعنی نصاب زکوۃ، شرائط زکوۃ وغیرہ میں، اس لیے عبادات مالیہ میں بھی فرق نہیں ہے۔ اس کے برخلاف جب مرد وعورت کے جسم کی ساخت میں فرق ہے تو لامحالہ ان کی عبادات بدنیہ میں فرق ہو گا۔
چند مثالیں:
1: مرد رمضان کے پورے روزے رکھتا ہے جب کہ عورت مخصوص ایام میں روزے نہیں رکھتی۔
2: وجوب حج کا نصاب تو ایک ہے لیکن مرد اکیلا جاسکتا ہے جب کہ عورت کے لیے محرم کا ہونا بھی شرط ہے۔
3: احرام کے کپڑوں میں فرق ہے۔
4: مرد تلبیہ اونچی آواز سے کہتا ہے جب کہ عورت آہستہ آواز سے کہتی ہے۔
5: طواف کے دوران مرد رمل یعنی اکڑ کر چلتا ہے جب کہ عورت میانہ رفتار سے چلتی ہے۔
6: مرد احرام کی چادر بازو کے نیچے سے نکالتا ہے جب کہ عورت کے لیے اس طرح کرنا جائز نہیں۔
7: دوران سعی مرد کو دوڑنا چاہیے جب کہ عورت کو نہیں دوڑنا چاہیے۔
8: مرد کے لیے حلق[سر منڈانا]افضل ہے جب کہ عورت کے لیے حلق جائز نہیں ہے۔
9: مرد وعورت کی شرعی حدود میں فرق ہے۔
10: مرد عورت کے کفن ودفن میں فرق ہے۔
یہ فروق بدن کی ساخت اور پردے کی وجہ سے ہیں۔اعتکاف بھی چونکہ بدنی عبادت ہے اس لیے اس میں بھی فرق ہونا چاہیے اور یہ فرق قرآن وحدیث اور عمل متوارث سے ثابت ہے۔اس لیے فقہاء نے قرآن و سنت کی روشنی میں مسئلہ لکھا ہے کہ مرد کے لیے اپنے محلے کی مسجد میں اعتکاف کرنا اور عورت کے لیے اپنے گھر کی مخصوص جگہ میں اعتکاف کرنا افضل ہے۔
(الہدایہ: ج 1ص209)
قرآن کریم:اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ
(سورۃ البقرہ:187)
اس آیت کی تفسیر میں امام ابوبکر الجصاص م 370ھ فرماتے ہیں:
وأما شرط اللبث في المسجد فإنه للرجال خاصة دون النساء۔
(احکام القرآن للجصاص :ج1ص333)
ترجمہ: مسجد میں ٹھہرنے کی شرط (اعتکاف کے لیے)صرف مردوں کے لیے نہ کہ عورتوں کے لیے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےایک مرتبہ فرمایا کہ میں رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کروں گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی (کہ وہ بھی اعتکاف کریں گی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا مجھے بھی اجازت دلا دو، انہوں نے اجازت دلا دی۔ جب حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے دیکھا تو انہوں نے بھی (خدام کو خیمہ لگانے کا) حکم دے دیا۔ چنانچہ ان کا بھی خیمہ لگادیا گیا۔جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کر اپنے خیمے کی طرف تشریف لے گئے تو بہت سارے خیموں کو دیکھ کر فرمانے لگے: یہ خیمے کیسے ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ حضرت عائشہ،حضرت حفصہ اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہن نے لگائے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیا انہوں نے اس سے نیکی کا ارادہ کیا ہے؟ “فامر بخبائہ فقوض” پهر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خیمے اکھاڑنے کا حکم دیا.
(صحیح البخاری: ج1ص274 باب من أراد أن يعتكف ثم بدا لہ أن يخرج)
یہی روایت صحیح مسلم میں بهی موجود ہے.
قارئین کرام! اس حدیث مبارک سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو مسجد میں اعتکاف نہیں کرنا چاہیے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے خیمے لگ جانے کے بعد اکھاڑنے کا حکم نہ دیتے۔ اور امی عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما کو جو اجازت ملی وہ ان کے ساتھ خاص ہے.
احناف فقہاء کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں اعتکاف مکروہ ہے.
(حاشیہ ابن عابدین جلد 2 صفحہ 440)
اسی طرح شوافع فقہاء کرام بهی فرماتے ہیں کہ جوان خاتون کا مسجد میں اعتکاف مکروہ ہے.
(الموسوعة الفقهية الکویتیة جلد 5 صفحہ 210)
معروف عرب عالم شیخ محمد بن صالح العثيمين بهی فرماتے ہیں کہ عورتوں کا مسجد میں اعتکاف کرنا باعثِ فتنہ ہے.
(الشرح الممتع علی زاد المستقنع جلد 6 صفحہ 510)
جو علماء خواتین کے مسجد میں اعتکاف کو جائز کہتے ہیں ان کے نزدیک بهی گهر میں اعتکاف کرنا افضل اور زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے تو کیوں غیر افضل کو افضل پر ترجیح دی جائے؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔
بعض لوگ دینی معاملات میں مرد وعورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے. حالانکہ مرد وعورت کے طریقہ عبادت میں فرق کا ہونا عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے۔
عبادات دو طرح کی ہیں:
نمبر 1:بدنیہ: جن کا تعلق انسان کے بدن کے ساتھ ہے.
نمبر2:مالیہ: جن کا تعلق مال کے ساتھ ہے.
مرد وعورت کے چونکہ مال میں فرق نہیں یعنی نصاب زکوۃ، شرائط زکوۃ وغیرہ میں، اس لیے عبادات مالیہ میں بھی فرق نہیں ہے۔ اس کے برخلاف جب مرد وعورت کے جسم کی ساخت میں فرق ہے تو لامحالہ ان کی عبادات بدنیہ میں فرق ہو گا۔
چند مثالیں:
1: مرد رمضان کے پورے روزے رکھتا ہے جب کہ عورت مخصوص ایام میں روزے نہیں رکھتی۔
2: وجوب حج کا نصاب تو ایک ہے لیکن مرد اکیلا جاسکتا ہے جب کہ عورت کے لیے محرم کا ہونا بھی شرط ہے۔
3: احرام کے کپڑوں میں فرق ہے۔
4: مرد تلبیہ اونچی آواز سے کہتا ہے جب کہ عورت آہستہ آواز سے کہتی ہے۔
5: طواف کے دوران مرد رمل یعنی اکڑ کر چلتا ہے جب کہ عورت میانہ رفتار سے چلتی ہے۔
6: مرد احرام کی چادر بازو کے نیچے سے نکالتا ہے جب کہ عورت کے لیے اس طرح کرنا جائز نہیں۔
7: دوران سعی مرد کو دوڑنا چاہیے جب کہ عورت کو نہیں دوڑنا چاہیے۔
8: مرد کے لیے حلق[سر منڈانا]افضل ہے جب کہ عورت کے لیے حلق جائز نہیں ہے۔
9: مرد وعورت کی شرعی حدود میں فرق ہے۔
10: مرد عورت کے کفن ودفن میں فرق ہے۔
یہ فروق بدن کی ساخت اور پردے کی وجہ سے ہیں۔اعتکاف بھی چونکہ بدنی عبادت ہے اس لیے اس میں بھی فرق ہونا چاہیے اور یہ فرق قرآن وحدیث اور عمل متوارث سے ثابت ہے۔اس لیے فقہاء نے قرآن و سنت کی روشنی میں مسئلہ لکھا ہے کہ مرد کے لیے اپنے محلے کی مسجد میں اعتکاف کرنا اور عورت کے لیے اپنے گھر کی مخصوص جگہ میں اعتکاف کرنا افضل ہے۔
(الہدایہ: ج 1ص209)
قرآن کریم:اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ
(سورۃ البقرہ:187)
اس آیت کی تفسیر میں امام ابوبکر الجصاص م 370ھ فرماتے ہیں:
وأما شرط اللبث في المسجد فإنه للرجال خاصة دون النساء۔
(احکام القرآن للجصاص :ج1ص333)
ترجمہ: مسجد میں ٹھہرنے کی شرط (اعتکاف کے لیے)صرف مردوں کے لیے نہ کہ عورتوں کے لیے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےایک مرتبہ فرمایا کہ میں رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کروں گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی (کہ وہ بھی اعتکاف کریں گی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا مجھے بھی اجازت دلا دو، انہوں نے اجازت دلا دی۔ جب حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے دیکھا تو انہوں نے بھی (خدام کو خیمہ لگانے کا) حکم دے دیا۔ چنانچہ ان کا بھی خیمہ لگادیا گیا۔جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کر اپنے خیمے کی طرف تشریف لے گئے تو بہت سارے خیموں کو دیکھ کر فرمانے لگے: یہ خیمے کیسے ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ حضرت عائشہ،حضرت حفصہ اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہن نے لگائے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیا انہوں نے اس سے نیکی کا ارادہ کیا ہے؟ “فامر بخبائہ فقوض” پهر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خیمے اکھاڑنے کا حکم دیا.
(صحیح البخاری: ج1ص274 باب من أراد أن يعتكف ثم بدا لہ أن يخرج)
یہی روایت صحیح مسلم میں بهی موجود ہے.
قارئین کرام! اس حدیث مبارک سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو مسجد میں اعتکاف نہیں کرنا چاہیے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے خیمے لگ جانے کے بعد اکھاڑنے کا حکم نہ دیتے۔ اور امی عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما کو جو اجازت ملی وہ ان کے ساتھ خاص ہے.
احناف فقہاء کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں اعتکاف مکروہ ہے.
(حاشیہ ابن عابدین جلد 2 صفحہ 440)
اسی طرح شوافع فقہاء کرام بهی فرماتے ہیں کہ جوان خاتون کا مسجد میں اعتکاف مکروہ ہے.
(الموسوعة الفقهية الکویتیة جلد 5 صفحہ 210)
معروف عرب عالم شیخ محمد بن صالح العثيمين بهی فرماتے ہیں کہ عورتوں کا مسجد میں اعتکاف کرنا باعثِ فتنہ ہے.
(الشرح الممتع علی زاد المستقنع جلد 6 صفحہ 510)
جو علماء خواتین کے مسجد میں اعتکاف کو جائز کہتے ہیں ان کے نزدیک بهی گهر میں اعتکاف کرنا افضل اور زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے تو کیوں غیر افضل کو افضل پر ترجیح دی جائے؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔