خواتين كيلئے عيد كي نماز كيلئے مسجد جانے کا کیا حكم ہے ؟
فتویٰ نمبر:252
الْجَواب حامِداوّمُصلّیاً
عید کی نماز مردوں پر واجب ہے عورتوں پر عید کی نماز واجب نہیں۔ رہی یہ بات کہ عورتوں کا عیدگاہ میں جانا، تو اسلام کے ابتدائی دور میں چونکہ امن تھا اور کوئی فتنے کا خوف نہ تھا اس لئے نبی کریم ﷺنے عورتوں کو مساجد اور عیدگاہ میں جانے کی اجازت دی تھی۔ بخاری وترمذی کی روایت ہے کہ حضرت امّ عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہمیں عیدگاہ جانے کا حکم دیا گیا۔ لیکن جب فتنوں کا دور بڑھا تو عورتوں کو مساجد جانے سے روک دیا گیا اور گھر میںنماز پڑھنے کی تاکید کی گئی۔ آپ ﷺکا ارشاد ہے کہ عورت کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں پڑھنے سے بہتر ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب عورتوں کو مساجد جانے سے روکا تو عورتوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی تو حضرت عائشہ نے فرمایا اگر حضور علیہ الصلاۃ والسلام یہ جان لیتے جو عمر کو معلوم ہے تو وہ تمہیں نکلنے کی اجازت نہیںدیتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ ﷺاگر ان حالات کو پالیتے جو آج عورتوں کے ساتھ پیش آرہے ہیں تو آپ ﷺان کو ضرور مسجد جانے سے منع فرمادیتے۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں نہ عورتوں پر عید کی نماز واجب ہے اور نہ ہی ان کا عید گاہ جانا درست ہے۔
لمافی اعلاء السنن(۲۶۱/۴): عن امّ سلمۃ رضی اللہ عنہا قالت: قال رسول اﷲ ﷺ: صلاۃ المرأۃ فی بیتھا خیر من صلاتھا فی حجرتھا، وصلاتھا فی حجرتھا خیر من صلاتھا فی دارھا وصلاتھا فی دارھا خیر من صلاتھا فی مسجد قومھا۔
وفی المحیط البرھانی(۴۸۵/۲): ولیس علی النّساء خروج فی العیدین وکان یرخّص لھنّ فی ذالک۔ قال: وقال أبو حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ: وامّا الیوم فانّی أکرہ لھنّ ذلک، وأکرہ لھنّ شہود الجمعۃ الخ۔
وفیہ ایضاً قال… واعلم بانّ النساء امرن بالقرار فی البیوت، قال اﷲ تعالیٰ ’’وقرن فی بیوتکن‘‘ ونہین عن الخروج، قال اﷲ تعالیٰ: ’’ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الأولیٰ‘‘ الا انہ ابیح لھن الخروج فی الابتداء الی الجماعات، لقولہ علیہ السلام ’’لاتمنعوا إماء اﷲ مساجد اﷲ ولتخرجن اذا خرجن تفلات‘‘ أی غیر متطیبّات، ثم منعن بعد ذلک لمافی خروجھن من الفتنۃ: قال اﷲ تعالیٰ’’ولقد علمنا المستقدمین منکم ولقد علمنا المستأخرین‘‘ قیل فی تفسیر الآیۃ: نزلت فی شان النسوۃ کان المنافقون یتأخرون حتی یطلعوا علی عورات النساء، فمنعن بعد ذالک۔ وقال النبی علیہ الصلاۃ والسلام ’’صلاۃ المرأۃ فی دارھا أفضل من صلاتھا فی مسجد وصلاتھا فی بیتھا افضل من صلاتھا فی دارھا)) وعن عمر رضی اللہ عنہ انہ نھی النساء عن الخروج إلی المساجد فشکون إلی عائشۃ رضی اللہ عنہا، فقالت عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا: ((لو علم النبی علیہ الصلاۃ والسلام ما علمہ عمر ما أذن لکنّ فی الخروج۔
وفی الدر المختار(۵۶۶/۱): (ویکرہ حضورھن الجماعۃ) ولو لجمعۃ وعید ووعظ (مطلقا) ولو عجوزا لیلا(علی المذھب) المفتی بہ لفساد الزمان۔
وفی الشامی ـ (قولہ علی المذھب المفتیٰ بہ) أی مذھب المتأخرین۔ قال فی البحر: وقد یقال ھذہ الفتویٰ التی اعتمدھا المتأخرون مخالفۃ لمذھب الامام وصاحبیہ، فانھم نقلوا أن الشّابۃ تمنع مطلقاً اتفاقاً۔
فقط وَاللہ اَعْلَم