شیلڈن جو مسلسل ناکامیوں کے بعد 51 ویں بزنس مین کامیاب ہوگیا
جمعرات کا دن تھا۔ یونیورسٹی میں صبح سے ہی چہل پہل شروع ہوچکی تھی ۔ ایک لان میں اسٹیج سجا ہوا تھا۔ خوبصورت شامیانے لگے ہوئے تھے ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔ طلبہ کی ٹولیاں جگہ جگہ نظر آرہی تھیں ۔ وہ گپ شپ میں مصروف تھے اور بات بات پر قہقے لگارہے تھے ۔ ان کے چہروں سے خوشی کے آثار صاف دکھائی دے رہے تھے ۔ وہ خوش اس لیے تھے کہ آج ان سے دنیا کے دسویں امیر ترین شخص نے خطاب کرنا تھا ۔اپنی کامیابی کے راز سے پردہ اٹھانا تھا کہ بارہ سالہ اخبار فروش بچہ کیسے دنیا کا امیر ترین آدمی بن گیا ۔
وہ آدمی شیلڈن تھا اور شیلڈن ایڈلسن ایک امریکی بزنس مین ہے۔ جولائی 2014ء فوربس میگزین کے مطابق اس کے اثاثہ جات 36 ۔4 ارب ڈالر ز پر مشتمل ہے۔ اس مالیت کے ساتھ یہ دنیا کا دسواں امیر ترین شخص ہے۔ یہ Sands Corporation Las Vegas کا چئیر مین اور ایگذیکٹو آفیسر ہے ۔ یہ ایک اسرائیلی اخبار Israel Ha Yamکا مالک بھی ہے ۔
بہر حال ! صبح 10 بجے وہ لمحہ آن پہنچا ، جس کے لیے یہ سارے انتظامات کیے گئے تھے ۔ شیلڈن مائیک پر آئے اور Naveda یونیورسٹی کے طلبہ اور پروفیسر سے خطاب کرنے لگے ۔90 منٹ کی تقریر تھی ۔ آخر یہ سوالات کی نشست ہوئی۔ ایک طالب علم نے سوال کیا : آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے ؟”
” میں اس کے بارے میں کبھی جان نہ سکا ” شیلڈن نے کہا۔ اس کا جواب طلبہ کے لیے انوکھا اور حیران کن تھا۔ ایک اور طالب علم نے ہمت کرتے ہوئے کہا : ” یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آپ ترقی کی منزلیں طے کرتے چلے جائیں ، اور آپ کو کامیابی کے اسباب کا علم تک نہ ہو۔” اس تبصرے پر شیلڈن ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ میری کامیابی کے راز اور اسباب بہت ہوسکتے ہیں لیکن جس کو میں اپنی ترقی کا راز سمجھتا ہوں وہ چار حروف پر مشتمل ایک لفظ ” Risk ” یعنی خطرات میں کود جانا ۔
شیلڈن 14 اگست 1933ء کو ایک ٖ غریب خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ایک ٹیکسی ڈرائیور تھا۔ شیلڈن کا بچپن ہی والدین کے لیے حیران کن تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک ایسا بچہ عطا کیا تھا جو بہت ساری خصوصیات کا مالک تھا۔ حوصلہ مندی ، بہادری اور خطرات میں کود جانا اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس سے بڑھ کر یہ خوبی تھی کہ ناکامی سے گھبرانے کے بجائے اس سے مزید سیکھتا اور آگے بڑھتا چلاجاتا۔
12 سال کی عمر میں شیلڈن نے اپنا بزنس کیریئر شروع کیا۔ اس کے پاس اتنے پیسے نہ تھےکہ وہ کوئی کاروبار کر سکتا ۔ اس مشکل سے نکلنے کے لیے اس نے اپنے چچا سے دو سوڈالر قرض لیے اور اس سے اخبار فروشی کا لائنسس خریدا ۔ یہ صبح سویرے اٹھتا اور سائیکل پر اخبار لاد کر مختلف گھروں تک پہنچاتا اور پھر اسکول جاتا ۔ یہ کام چار سال باقاعدگی سے چلتا رہا۔ لیکن اس کام میں ترقی کے آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ اس وجہ سے ڑافیاں بنانے والی مشین کی خرید وفروخت کا بزنس شروع کرلیا۔ اس دوران شیلڈن کو احساس ہوا کہ بزنس سے متعلق تعلیم حاصل کرنی چاہیے ، کیونکہ رسمی تعلیم عملی زندگی میں زیادہ ساتھ نہیں دے پاتی ۔ شیلڈن ایک ٹریڈ اسکول میں بڑھنے لگا، ابھی تعلیم مکمل نہیں ہو پائی تھی کہ فوج میں بھرتی ہوگیا۔ کسی وجہ سے یہ فوج سے ڈسچارج کردیا گیا۔ اس کے بعد سٹی آف نیو یارک میں پڑھنے لگا۔
بزنس ” شیلڈن” کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا تھا۔ اس لیے یہ تعلیم کے ساتھ پرس اور بیگ وغیرہ فروخت کرنے لگا ۔ شیلڈن کے ساتھ ایک مسئلہ تھا جسے آپ اس کی خوبی یا عیب کہہ سکتے ہیں۔ یہ جس چیز میں نفع دیکھتا تو پہلے کام کو چھوڑ کر اس کی طرف لپک پڑتا ۔ اس کے بعد یہ کیمیکل اسپرے فروخت کرنے لگا ۔
1960ء میں اس نے ایک چار ٹر ٹورز بزنس شروع کیا۔ بہت سارے خیر خواہوں اور دوستوں نے اسے اس بزنس میں کودنے سے منع کیا لیکن یہ ہمیشہ رسک لیتا اور روکنے کے باوجود رکا نہیں کرتا تھا۔ ٹورزم(سیاحت) کے بزنس سے پہلے ہر کام میں اسے ناکامی نہیں کہتا تھا ۔ اس کے مطابق یہ ایک رکاوٹ تھی جو اس کے راستے میں آئی اور ہٹ گئی ۔ یہ بزنس اس کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ اب اس کی کاروباری زندگی ایک نئے ڈگر پر چل پڑی ۔ یہ جلد ہی لاکھوں مالیت کا مالک بن گیا۔
اگر شیلڈن کی 30 سالہ زندگی کا جائزہ لیاجائے تو اس میں بے شمار اتار چڑھاؤ دکھائی دیتے ہیں ۔ قدم قدم پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری ۔ شیلڈن نے اپنی کاروباری زندگی میں خود سے 50 بزنس کیے ۔
اگر آپ بھی بزنس کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو رسک لینا پڑے گا ۔ کاروبار ی سفر خطرات سے پر ہوتا ہے۔ اس میں کامیابی صرف ان کے قدم چومتی ہے جو رسک لیتے ہیں۔ جتنا آپ گڑ ڈالیں ، اتنا میٹھا ہوگا ۔
کاروباری اداروں میں جدید ڑیکنالوجی ، پروڈکشن اور کسٹمر ز کا بدلتا ہوا رجحان وغیرہ جیسے مسائل بہت زیادہ پیدا ہوتے رہتے ہیَ ۔ ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنے ملازمین کو ٹریننگ دی جائے تو ان کو باآسانی حل کیا جاسکتا ہے۔ ٹریننگ سے نہ صرف ملازمین خوش اور مطمئن رہتے ہیں بلکہ کمپنی اور ادارے کی ترقی میں نمایاں کردار بھی ادا کرتے ہیں۔” دوران ملازمت ٹریننگ “ایک کامیاب کاروباری تصور ہے۔ جس پر مغربی ممالک بڑی پابندی سے عمل پیرا ہیں ۔ ترقی یافتہ دنیا” دوران ملازمت ٹریننگ ” سے متعلق ٹریننگ” سے متعلق کیا سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے کیے گئے ایک سروے کا خلاصہ پیش خدمت ہے:
ملازمین کی پست ہمتی کمپنی یا بزنس پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے ؟
پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے ۔
ملازمین کے اندر باہم لڑائی جھگڑے ہونے لگتے ہیں ۔
ملازمین کی غیر حاضری میں اضافہ ہوتا ہے ۔
ملازمین کمپنی میں جم کر کام نہیں کرتے ۔
موثر ٹریننگ کے لیے 3 گر
ملازمین کی اکثریت پست ہمتی کی وجہ لیڈر شپ کو قرار دیتی ہے ۔ جب آپ اپنے ملازمین کو ٹریننگ دینے لگیں تو مندرجہ ذیل چیزوں کا خاص خیال رکھیں :
مؤثر لیڈر شپ کا انتخاب
مثالی لیڈر وہ ہوتا ہے جس تک ہر ایک کی رسائی آسان ہو۔ وہ پرجوش اور مستقل مزاج ہو۔ وہ لیڈر ملازمین اور کارکنوں کو اس طریقے سے تربیت دے کہ غیر شعوری طور پر ان کی کوتاہیاں اور خرابیاں دور ہوجائیں۔
رابطہ کاری کی حوصلہ افزائی
جب ٹریننگ دینے والے یقین ہوجائے کہ ہدایات واضح اور عام فہم ہیں تو ان کو قابل عمل بنائے اور باقاعدہ ماتحتوں سے فیڈ بیک لے۔ اس کے لیے دوستانہ ماحول تخلیق کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
عملے کو ترغیب دینا
حوصلہ افزائی اور ولولہ انگیزی ایسی چیزیں ہیں جو دوسرے کے اندر نئی روح پھونک دیتی ہیں۔ اس لیے لیڈر شپ کو چاہیے کہ اپنے ملازمین کی ضروریات کا خیال رکھے ۔ ان کو یہ یہ احساس دلائے کہ وہ ان کے لیے کتنے اہم اور ضروری ہیں۔ نیز ہمیشہ ان کے مستقبل کے لیے مثبت اور پر امید باتیں کرے ۔
آن دی جاب ٹریننگ کی افادیت
ملازمین کے اندر جذبہ اور ولولہ پیدا کرنا ایک مزستقل مسئلہ ہے۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ دوران ملازمت ملازمین کو ٹریننگ دلوائی جائے ۔ سروے مطابق۔۔۔۔
40 فیصد ملازمین کا کہنا ہے کہ ٹریننگ سے پیداواری صلاحیتوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوجاتا ہے ۔
35 فیصد ملازمین کا کہنا ہے کہ اس سے انسان کے اندر نئی زندگی آجاتی ہے ۔
دوران ملازمت ٹریننگ کس طرح معاون ومددگار ثابت ہوتی ہے ؟
پست ہمتی کے اسباب
مقابلہ بازی کا ماحول نہ ہونا
پیشہ ورانہ مہارت میں اضافے کے مواقع کا فقدان
باہم رابطہ نہ ہونا
حوصلہ افزائی کی کمی
عملے کے اندر جذبے کی کمی
انتظامیہ کا عدم اعتماد
باہمی تعلقات کا ناخوش گوار نہ ہونا
کام کے اندر سخت شرائط کا ہونا