فتویٰ نمبر:4053
سوال: السلام علیکم
کوئی شخص اپنی بیوی کو خلوت صحیحہ سے پہلے ہی طلاق دے دے اس صورت میں اگر ایک یا الگ الگ 3 طلاق دی تو وہ بائن ہوگی اور اگر ایک ساتھ 3 طلاق دے دے تو 3 ہی شمار ہوں گی دونوں صورتوں میں دوبارہ نکاح کی کیا صورت ہوگی؟
رخصتی اور خلوت صحیحہ سے پہلے؟
والسلام
الجواب حامدۃو مصلية
1.پہلی صورت میں جبکہ خلوت صحیحہ سے پہلے ایک یا الگ الگ تین طلاقیں دیں تو ایک طلاق بائن واقع ہوگی باقی دو اکارت گئی اس صورت میں بغیر عدت کےنئے مہر اور دو گواہوں کی موجودگی میں تجدید نکاح کرکے دوبارہ اس عورت کو اپنے نکاح میں لانا جائز ہے ۔اور آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار ہوگا ۔
2.البتہ دوسری صورت میں جبکہ خلوت صحیحہ سے پہلے ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیں تو تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں لہذا اب وہ عورت اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئ اب بغیر حلالہ شرعیہ( یعنی وہ عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے پھر
مطلقہ یا بیوہ ہو جائے ) کے اس عورت کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ۔
“(وَإِنْ فَرَّقَ) بِوَصْفٍ أَوْ خَبَرٍ أَوْ جُمَلٍ بِعَطْفٍ أَوْ غَيْرِهِ (بَانَتْ بِالْأُولَى) لَا إلَى عِدَّةٍ (وَ) لِذَا (لَمْ تَقَعْ الثَّانِيَةُ)”( رد المحتار:
3/ 286، با ب طلاق غیر المدخول بھا، ط؛ سعید)
وفیہ ایضاً:
“(قوله: وكذا في وقوع طلاق بائن آخر إلخ) في البزازية: والمختار أنه يقع عليها طلاق آخر في عدة الخلوة، وقيل: لا اهـ وفي الذخيرة: وأما وقوع طلاق آخر في هذه العدة، فقد قيل: لا يقع، وقيل: يقع، وهو أقرب إلى الصواب؛ لأن الأحكام لما اختلفت يجب القول بالوقوع احتياطاً، ثم هذا الطلاق يكون رجعياً أو بائناً ذكر شيخ الإسلام أنه يكون بائناً اهـ ومثله في الوهبانية وشرحها.
والحاصل: أنه إذا خلا بها خلوةً صحيحةً ثم طلقها طلقةً واحدةً فلا شبهة في وقوعها، فإذا طلقها في العدة طلقةً أخرى فمقتضى كونها مطلقةً قبل الدخول أن لا تقع عليها الثانية، لكن لما اختلفت الأحكام في الخلوة في أنها تارةً تكون كالوطء وتارةً لا تكون، جعلناها كالوطء في هذا فقلنا بوقوع الثانية احتياطاً؛ لوجودها في العدة، والمطلقة قبل الدخول لا يلحقها طلاق آخر إذا لم تكن معتدةً بخلاف هذه.
والظاهر أن وجه كون الطلاق الثاني بائناً هو الاحتياط أيضاً، ولم يتعرضوا للطلاق الأول. وأفاد الرحمتي أنه بائن أيضاً؛ لأن الطلاق قبل الدخول غير موجب للعدة؛ لأن العدة إنما وجبت لجعلنا الخلوة كالوطء احتياطاً، فإن الظاهر وجود الوطء في الخلوة الصحيحة؛ ولأن الرجعة حق الزوج وإقراره بأنه طلق قبل الوطء ينفذ عليه فيقع بائناً، وإذا كان الأول لا تعقبه الرجعة يلزم كون الثاني مثله. اهـ. ويشير إلى هذا قول الشارح: طلاق بائن آخر، فإنه يفيد أن الأول بائن أيضاً، ويدل عليه ما يأتي قريباً من أنه لا رجعة بعده، وسيأتي التصريح به في باب الرجعة، وقد علمت مما قررناه أن المذكور في الذخيرة هو الطلاق الثاني دون الأول، فافهم. ثم ظاهر إطلاقهم وقوع البائن أولاً وثانياً وإن كان بصريح الطلاق، وطلاق الموطوءة ليس كذلك فيخالف الخلوة الوطء في ذلك.
وأجاب ح: بأن المراد التشبيه من بعض الوجوه وهو أن في كل منهما وقوع طلاق بعد آخر. اهـ. وأما الجواب بأن البائن قد يلحق البائن في الموطوء فلا يدفع المخالفة المذكورة فافهم”۔(3 / 119)
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:3رجب1440ھ
عیسوی تاریخ:11مارچ 2019
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: