حضرت علیؓ بن ابی طالب :تیسری قسط:
تحریر:حضرت مولانا خلیق احمد مفتی صاحب
منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعد
حضرت علیؓ کے حصے میں یہ نازک ترین ذمہ داری ایسے وقت میں آئی تھی کہ جب چہارسوشدیداضطراب اوربے چینی کاایک لامتناہی سلسلہ تھا،ہرنئے دن کے ساتھ ہی نئی سازش اورنئی شورش جنم لیتی تھی،انہی شرانگیزقسم کے حالات میں خلیفۂ چہارم کے دورِخلافت کاآغازہوا۔
اس موقع پرسب سے اہم اورنازک ترین معاملہ جوفوری طورپردرپیش تھا، وہ قاتلینِ عثمان ؓ کی گرفتاری اورپھرانہیں قرارواقعی سزادینے کامعاملہ تھا،لیکن یہ کوئی آسان معاملہ نہیں تھا،کیونکہ صورتِ حال انتہائی پیچیدہ تھی، باغی اب بھی بدستورکافی طاقتورتھے،اورپھریہ کہ جہاں بلوہ ہو ،ماردھاڑ ، قتل وغارتگری ، افراتفری ، جہاں ہزاروں انسانوں کاجمعِ غفیرہو، وہاں توشایدخودبلوائیوں اورفسادیوں کوبھی درست اندازہ نہیں ہوسکتاکہ کس نے کس کوقتل کیا؟لہٰذامحض افواہ یاسنی سنائی بات کی بنیادپرکسی کومجرم قراردینا،اورپھراسے سزا بھی دینا، یہ کسی صورت مناسب نہیں تھا،بلکہ وہاں توتمام شرعی وعدالتی تقاضوں کی تکمیل لازمی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ حضرت علیؓ نے خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعداس معاملے کوفی الحال کچھ عرصہ کیلئے ملتوی کرنامناسب سمجھا،تاکہ اس شورش زدہ ماحول میں قدرے بہتری آجائے، مرورِوقت کے ساتھ معاملات پرگرفت بھی نسبۃً بہتراورمضبوط ہوجائے، مزیدیہ کہ اس خونِ ناحق کے حوالے سے جواسرارہیں،جوپوشیدہ گوشے ہیں،اورجوخفیہ حقائق ہیں وہ قدرے کُھل کرسامنے آجائیں، تب مکمل خوداعتمادی کے ساتھ بھرپور طریقے سے اس معاملے کی طرف توجہ دی جائے۔مگرصدافسوس کہ ہرگذرتے ہوئے لمحے کے ساتھ یہ معاملہ نازک تراورسنگین ترین ہوتاچلاگیا،پیچیدگیاں بڑھتی ہی رہیں،جس قدرسلجھانے کی کوشش کی گئی ، اسی قدرالجھنیں بڑھتی گئیں، نوبت بایں جارسیدکہ ہرنئی صبح طلوع ہونے والے نئےسورج کے ساتھ ہی ایک نیافتنہ بھی طلوع ہوجاتا۔
فتنوںاورسازشوں سے بھرپوراس گھٹن زدہ ماحول میں ایک اہم حقیقت یہ تھی کہ ان تمام ترمشکلات کی اصل آماجگاہ مدینہ سے کافی دوردرازکے علاقے تھے،اوریہ کہ یہاں اس قدردورمدینہ میں رہتے ہوئے اس بگاڑ کی اصلاح کافی مشکل تھی،اسی حقیقت کااحساس وادراک کرتے ہوئے حضرت علیؓ نے اب مدینہ سے انہی دوردرازکے علاقوں کی طرف نقل مکانی کاارادہ کیا،تاکہ وہاں قریب رہتے ہوئے ان فتنوں کابہترطریقے سے قلع قمع کیا جاسکے۔
چنانچہ حضرت علیؓ نے ماہِ ربیع الثانی سن ۳۶ہجری میں مدینہ میں نوسوجانبازوں پرمشتمل ایک لشکرتیارکیا،اورخوداس کی قیادت کرتے ہوئے ابتدائی طورپربصرہ کی طرف کوچ کرنے کا اعلان کیا۔اکابرصحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے متعددحضرات ،بالخصوص حضرت ابوایوب انصاری ؓ نے حضرت علی ؓ کو اس پریشان کُن صورتِ حال میں اُن شورش زدہ علاقوں کی جانب روانگی کاارادہ ترک کردینے کامشورہ دیا۔
لیکن حضرت علیؓ نے اس سلسلہ میں معذرت کااظہارکیا،اورپھرمدینہ سے عین روانگی کے وقت حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے بے ساختہ آگے بڑھ کرآپؓ کے گھوڑے کی لگام تھام لی اوراسے روک لیا،اورپھربڑے ہی حسرت آمیزلہجے میں یوں کہاکہ :’’اے امیرالمؤمنین!اگرآپ ایک بارمدینہ سے چلے گئے توپھرشایدآپ زندگی میں دوبارہ کبھی رسول اللہ ﷺکایہ شہرمدینہ ،رسول اللہﷺکی یہ مسجد ،اوریہ منبرومحراب نہیں دیکھ سکیں گے‘‘، اس کے بعدمزیدیہ بھی کہا’’اگرآپ آج اس شہرمدینہ کوچھوڑکرچلے گئےتوپھرشایدقیامت تک دوبارہ کبھی یہ شہرمدینہ مسلمانوں کادارالخلافہ نہیں بن سکے گا‘‘۔
اس پرلشکرمیں سے کسی جوشیلے شخص نے آگے بڑھ کرحضرت عبداللہ بن سلام ؓ کے ساتھ کچھ تلخ کلامی کی،جس پرحضرت علیؓ نے اسے تنبیہ کی اوراس حرکت پرناگواری کااظہارکیا،اورپھرحضرت عبداللہ بن سلام ؓکی طرف متوجہ ہوتے ہوئے حسبِ سابق اپنافیصلہ تبدیل کرنے کے بارے میں معذرت کااظہارکیا،اورپھران سب کی نگاہوں کے سامنے وہاں سے بصرہ کی جانب روانہ ہوگئے۔
اورپھربصرہ میں کچھ عرصہ قیام کے بعدوہاں سے مزیدآگے کوفہ چلے گئے،لیکن وہاں پہنچنے کے بعدبھی صورتِ حال میں کوئی بہتری نہ آسکی۔حضرت علیؓ کواپنی تمام مدتِ خلافت کے دوران روزِاول سے روزِآخرتک سکون کاکوئی ایک لمحہ بھی میسرنہ آسکا،پانچ سال کے عرصے پرمحیط آپؓ کایہ تمام ترزمانۂ خلافت داخلی فتنوں ، شورشوں ، سازشوں ، افتراق وانتشار ، اورخانہ جنگیوں کی نذرہوگیا۔
مشکل درمشکل کے اس لامتناہی سلسلے کے حوالے سے ایک اہم حقیقت جسے ذہن نشیں رکھناضروری ہے ،وہ یہ کہ خلیفۂ چہارم امیرالمؤمنین حضرت علیؓ سے قبل گذشتہ خلفاء ، بالخصوص پہلے دونوں خلفاء کومنصبِ خلافت جب ملا،اُس وقت صورتِ حال یہ تھی کہ ان کی رعیت میں سے بہت بڑی اکثریت خودحضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کی تھی،جوبڑی حدتک ان کے ہم خیال اورہم مزاج تھے۔
اس بات کویوں سمجھناچاہئے کہ جس طرح کسی کلاس روم میں بعض اوقات کوئی استادنظم وضبط برقراررکھنے کی غرض سے وہاں موجودطلبہ میں سے ہی کسی کو’’مانیٹر‘‘مقررکردیتاہے۔اُس موقع پرصورتِ حال یہ ہوتی ہے کہ وہ مانیٹرجن طلبہ کی ’’مانیٹرنگ‘‘یانگرانی اوردیکھ بھال کررہاہوتاہے،وہ سب اس کے اپنے دوست اورساتھی ، اس کے ہم جماعت ، ہم عصر ، اورہم عمرہواکرتے ہیں،وہ سب ایک ہی استادسے تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں ، ایک ہی کتاب اورایک ہی نصاب پڑھ رہے ہوتے ہیں،ایک ہی ادارے کے وہ طلبہ ہواکرتے ہیں،ان کی تعلیم وتربیت ایک ہی اندازسے ہورہی ہوتی ہے،ان کی سوچ ، ان کے اندازواطوار ، ان کے خیالات وافکار ، ان کے اہداف ، ان کے ارادوں ، نیزان کے اغراض ومقاصدمیں بڑی حدتک مماثلت ویگانگت ہواکرتی ہے،لہٰذاخودانہی کے اس ساتھی ’’مانیٹر‘‘کو اپنے ان ہم جماعت طلبہ کی نگرانی ،یاان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی مفاہمت ، یاکوئی معاملہ طے کرنے میں قطعاًکوئی دشواری پیش نہیں آتی۔لیکن اگرکبھی بعدمیں طویل زمانہ گذرجانے کے بعداسی مانیٹرکواپنے انہی ہم جماعت طلبہ کی بجائے ان کی اولادمیں سے کسی کے ساتھ کوئی معاملہ طے کرنے کی نوبت آجائے، توصورتِ حال یقینابہت مختلف ہوگی۔
یاجس طرح دوبھائیوں میں باہم کس قدرمحبتیں اورقربتیں ہواکرتی ہیں،ہمیشہ دکھ سکھ کے ساتھی،بلاتکلف اوربلاجھجک ہمیشہ ایک دوسرے کے سامنے صاف صاف حالِ دل بیان کردینے والے،لیکن اگربعدمیں کبھی انہی میں سے ایک بھائی کواپنے دوسرے بھائی کے بجائے اس کی اولادکے ساتھ کوئی مفاہمت کرنی پڑے ،یاکوئی معاملہ طے کرنے کی نوبت آئے، تب یقیناوہ بات نہیں ہوگی جوخودبھائیوں میں آپس میں تھی۔قدرت کایہی نظام ہے۔
اسی طرح خلیفۂ چہارم سے قبل گذشتہ خلفاء ، بالخصوص پہلے دوخلفاء ، کے دورمیں صورتِ حال یہ تھی کہ ان کی رعیت میں غالب اکثریت اکابرصحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تھی،جوان کے ہم خیال اورہم مزاج تھے،ایمان واخلاص ، زہدوتقویٰ ، للہیت وفنائیت ، فکرِ آخرت ، امانت ودیانت ، حق گوئی وراست بازی ، دنیاکے حقیرمال ومتاع سے بے رغبتی ، غرضیکہ ہرلحاظ سے ان سب کامعیارایک ہی جیساتھا،ان سب کی تربیت خودخاتم الأنبیاء واشرف المرسلین نے فرمائی تھی،ان سب نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کادین براہِ راست خوداللہ کے رسول ﷺ سے ہی سیکھاتھا،آپ ﷺ کی صحبت ومعیت ، کسبِ فیض کے وہ مبارک سلسلے ، اورآپ ﷺ کاوہ فیضانِ نظریہی وہ بے مثال شرف تھا،اوریہی وہ اعلیٰ ترین اعزاز تھا جس نے انہیں تمام بنی نوعِ انسان میں یکتائے روزگاربنادیاتھا،لہٰذاان گذشتہ (دو) خلفاء کواپنے ہی ان مخلص دوستوں اورساتھیوں پرمشتمل اپنی اس رعیت کے ساتھ مفاہمت اورمعاملات طے کرنے میں،نیزانتظامی معاملات چلانے میں کسی دقت ، کسی سازش یا کسی شورش کاسامنانہیں کرناپڑا۔
ان کے برعکس خلیفۂ چہارم حضرت علیؓ نے جب منصبِ خلافت سنبھالاتودنیابدلی ہوئی تھی،ماحول بدلاہواتھا،لوگوں کے مزاج بدلے ہوئے تھے،بالخصوص مدینہ سے بصرہ اورپھرکوفہ منتقل ہوجانے کے بعدتواس ناگوار تبدیلی میں مزیدشدت آچکی تھی،مدینہ میں تواب بھی کافی تعدادمیں اہلِ خیرموجودتھے، مبارک ہستیاں بکثرت نظرآتی تھیں،لیکن سینکڑوں میل کی مسافت پرواقع اس نئی جگہ پر توہرطرف ناآشناہی نظرآتے تھے،نئی نئی شکلیں،نامانوس اوراجنبی چہرے،جن کے مزاج مختلف،اندازبدلے ہوئے،اخلاق وعادات جداگانہ، عمررسیدہ اورتربیت یافتہ شخصیات کی بجائے نوجوانوں کی ٹولیاں،ناتجربہ کار،ناقص تربیت،جوش عروج پر،لیکن ہوش کافقدان، ان میں سے اکثریت نومسلموں کی،یہی وہ صورتِ حال تھی جس کی وجہ سے حضرت علیؓ اکثربیتے دنوں کو،رسول اللہﷺکو اوراپنے پرانے احباب کویادکرکے رنجیدہ وافسردہ ہوجایاکرتے تھے۔
حضرت علیؓ کویہ بات بخوبی یادتھی کہ رسول اللہﷺنے انہیں’’ شہادت‘‘ اورپھر’’جنت ‘‘کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا،لہٰذاوہ اپنے اللہ کی رضاکی خاطرصبروشکراورہمت و استقامت کے ساتھ ،بس اللہ سے لَولگائے ہوئے،سب کچھ برداشت کررہے تھے،کوئی شکوہ نہیں تھا،کوئی فریادنہیں تھی،کوئی آہ وبکاء نہیں تھی،بس خاموشی کے ساتھ سب کچھ دیکھتے ہوئے اسی انجام کی طرف،اوراسی منزل کی جانب بڑھ رہے تھےکہ جواس فانی وعارضی دنیامیں اکثر’’اللہ والوں‘‘ کامقدررہی ہے۔
اسی لئے اُن دنوں اکثراپنے ایک ہاتھ سے اپنی داڑھی کوتھامے ہوئے اوردوسرے ہاتھ سے اپنی پیشانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں کہاکرتے تھے: “عنقریب یہ میری داڑھی میری پیشانی سے بہنے والے خون سے رنگی جائے گی۔‘‘
اورپھراسی پُرآشوب دورمیں بالآخربدنامِ زمانہ ’’خوارج‘‘کا ایک گروہ جسے کچھ عرصہ قبل ہی ’’نہروان‘‘کے میدان میں حضرت علیؓ کے ہاتھوں بدترین اور رسواکن شکست وہزیمت کا سامناکرناپڑاتھا،اس گروہ نے اپنی اسی شکست کاانتقام لینے کی غرض سے حضرت علیؓ کے قتل کی ٹھانی،اورغوروفکرکے بعدیہ ذمہ داری ’’ابن مُلجَم‘‘کوسونپی گئی جوکہ اس مذموم مقصدکی تکمیل کی خاطرکوفہ جاپہنچا،وہاں آمدکے بعدکسی مناسب جگہ روپوش ہوکراس ناپاک ارادے کوعملی جامہ پہنانے کی غرض سے خفیہ طورپرتیاری میں مشغول ومنہمک ہوگیا، وہاں قیام کے دوران ایک ماہ تک مسلسل روزانہ بلاناغہ وہ اپنی تلوارکوزہرآلودکرتارہا، نیزاس دوران وہ حضرت علیؓ کی نقل وحرکت ودیگرمعمولاتِ زندگی کابغورجائزہ بھی لیتارہا۔
آخر رمضان کی سترہ تاریخ تھی،نمازِفجرسے قبل اندھیرے کافائدہ اٹھاتے ہوئے وہ حضرت علیؓ کے گھرسے مسجدکی طرف جانے والی گلی کے ایک موڑپر چھپ کربیٹھ گیا،حضرت علی ؓ کایہ معمول تھاکہ نمازِفجرکیلئے گھرسے مسجدکی طرف روانگی کے موقع پراس گلی میں حَيَّ عَلَیٰ الصَّلَاۃ کی صدابلندکرتے جاتے تھے ،تاکہ جوکوئی خوابِ غفلت میں مبتلاہو وہ اس طرف متوجہ ہوجائے اورنمازکیلئے تیاری کرے،اس چیزسے اس بدبخت کیلئے اپنے ناپاک منصوبے کی تکمیل میں مزیدسہولت ہوگئی،چنانچہ جب اس نے حَيَّ عَلَیٰ الصَّلَاۃ کی یہ صداسنی تووہ مزیدچوکس اور خوب مستعدہو گیا،تلوارپراپنی گرفت خوب مضبوط کرلی،جیسے ہی حضرت علیؓ اُس موڑ پر پہنچے اس نے اچانک سامنے نمودارہوکراپنی اس زہرآلودتلوارسے آپؓ کے سرپر بھرپور وار کیا،جس کے نتیجے میں آپؓ شدیدزخمی ہوکرگرپڑے،اورآپؓ کے سرسے مسلسل خون بہنے لگا۔
اس المناک واقعہ سے تقریباًپینتیس سال قبل غزوۂ خندق کے یادگاراورتاریخی موقع پرجب مشرکینِ مکہ کانامورشہسوار’’عبدوُد‘‘جس کی بہادری کے بڑے چرچے تھے،اورجس کی بڑی ہیبت ودہشت تھی،ایک موقع پرجب وہ خندق پارکرنے میں کامیاب ہوگیاتھا، اورمسلمانوں کے سامنے پہنچ کرانہیں للکاررہاتھا، تب رسول اللہﷺنے حضرت علیؓ کواس کے مقابلے کیلئے نکلنے کاحکم دیاتھا،اس حکم کی فوری تعمیل کرتے ہوئے آپؓ بلاخوف وخطرغروروتکبرکے اُس پتلے کے سامنے جاکھڑے ہوئے تھے،عبدِوُدنے آپؓ پرتلوار کا بھرپوروارکیاتھا،جس کے نتیجے میں آپؓ کے سرمیں کاری زخم آیاتھااوربڑی مقدارمیں خون بہنے لگاتھا،اسی کیفیت میں آپؓ نے پلٹ کراس دشمنِ خداپرایسا بھرپوروارکیاتھاکہ چشم زدن میں وہ زمین بوس ہوگیاتھا۔
پینتیس سال کاطویل عرصہ گذرجانے کے بعداب کوفہ میں دوبارہ آپؓ کے سرمیں عین اس مقام پرکہ جہاں اُس پرانے زخم کانشان بدستورباقی تھا،اسی جگہ تلوارکی ضرب لگی اوراُسی طرح بڑی مقدارمیں خون بہنے لگا۔
لوگوں کوجب اس افسوسناک ترین صورتِ حال کی اطلاع ملی تودیکھتے ہی دیکھتے وہاں جمعِ غفیراکٹھاہوگیا،حضرت علیؓ کواٹھاکرگھرلے جایاگیا،جبکہ قاتل ’’ابن مُلجَم‘‘نے جائے واردات سے فرارہونے کی کوشش کی ،تاہم وہاں موجودمجمع نے اسے موقع پرہی دبوچ لیا۔
حضرت علی ؓ اس قاتلانہ حملے میں شدیدزخمی ہونے کے بعددودن موت وزیست کی کشمکش میں مبتلارہے،اس دوران آپؓ نے عام لوگوں کو ،اوربالخصوص اپنے صاحبزادگان ودیگراہلِ بیت کومتعددوصیتیں فرمائیں،اپنے قاتل کے بارے میں وصیت کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’اگرمیری موت واقع ہوگئی توشرعی قوانین کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے صرف اسے جائزسزادینا،اس سے زیادہ اسے یااس کے افرادِ خانہ میں سے کسی کوکوئی گزندنہ پہنچانا،اوراگرمیں زندہ رہا تومیں خودفیصلہ کروں گاکہ اسے سزادی جائے،یا معاف کردیاجائے۔‘‘
انہی دنوں متعددافرادنے آپؓ سے یہ مطالبہ کیاکہ ’’اے امیرالمؤمنین!آپ اپناکوئی جانشین تومقررکردیجئے‘‘مگرآپؓ نے ایساکرنے سے معذرت کی،اورکسی کواپناجانشین مقررنہیں فرمایا۔
آخرکوفہ میں اسی قاتلانہ حملے کے نتیجے میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے۲۱/رمضان سنہ ۴۰ہجری تریسٹھ برس کی عمرمیں امیرالمؤمنین حضرت علیؓ اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے اوراپنے اللہ سے جاملے۔آپؓ کے صاحبزادگان حضرت حسن ؓ ،حضرت حسین ؓ ، محمدبن الحنفیہ رحمہ اللہ،نیزبھتیجے حضرت عبداللہ بن جعفرؓ نے غسل اورتجہیزوتکفین کے فرائض انجام دئیے۔نمازِجنازہ حضرت حسن ؓ نے پڑھائی۔