خلیفۂ چہارم امیرالمؤمنین حضرت علیؓ بن ابی طالب :دوسری قسط:
تحریر:حضرت مولانا خلیق احمد مفتی صاحب
عبادات
حضرت علی ؓ زہدوتقویٰ ، تعلق مع اللہ ، خشیتِ الٰہیہ ، شب بیداری وتہجدگذاری ، دنیاومافیہاسے دور،الگ تھلگ،رات کے اندھیروں میں اپنے اللہ سے لَولگانے،اوراس کے سامنے گریہ وزاری ،دعاء ومناجات اورآہ وفریاد کے حوالے سے بہت بلندترین مقام پرتھے۔
دنیاسے بے رغبتی
حضرت علیؓ دنیاوی مال ودولت اورشان وشوکت سے ہمیشہ دوررہے،دنیاسے بے رغبتی ،سیدھی سادھی زندگی،صبروقناعت، نام ونموداورشہرت سے گریز،آپؓ کے مزاج کاخاصہ تھا،چنانچہ ایک بارآپؓ مدینہ میں مسجدِنبوی میں فرش پرہی محوِآرام تھے،اورآپؓ کاجسم خاک آلودبھی ہورہاتھا، اس دوران رسول اللہ ﷺآپ کوتلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچے،آپﷺنے جب یہ منظردیکھاتوانتہائی پیار اور شفقت سے علیؓ کومخاطب کرتے ہوئے یوں آوازدی: قُم یَا أبَا تُرَاب’’اے مٹی والے اُٹھو…‘‘۔
حکمت ودانش
اللہ سبحانہ، وتعالیٰ کی طرف سے علیؓ کوبے مثال حکمت ودانش اورفہم وفراست سے بہرہ مندفرمایاگیاتھا،چنانچہ آپؓ کے اقوالِ زریں اورارشادات وفرمودات طالبانِ حق کیلئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں،گویاآپؓ حکمت ودانش کاچلتاپھرتاخزانہ اوربحرِ بیکراں تھے،یہی وجہ ہے کہ آپ ؓ زندگی بھرحکمت ودانش کے موتی بکھیرتے رہے۔
بے مثال علمی استعداد
حضرت علیؓ اللہ سبحانہ ، وتعالیٰ کی طرف سے عطاء فرمودہ بے مثال علمی استعداداورقابلیت وصلاحیت کی وجہ سے مرجعِ عام وخاص تھے،فقہائے صحابہ میں انہیں ممتازومنفردمقام ومرتبہ حاصل تھا،بڑے بڑے جلیل القدرصحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مختلف دینی مسائل کے حل کیلئے ا ن کی طرف رجوع کیاکرتے تھے،بالخصوص خلیفۂ دوم حضرت عمربن الخطاب ؓ اپنے زمانۂ خلافت کے دوران مختلف دینی معاملات ،فقہی مسائل ،اورشرعی احکام کے بارے میں بکثرت ان سے مشاورت کیاکرتے تھے،اسی بارے میں ان کایہ مقولہ مشہورہے: لَولَا عَلِيٌّ لَھَلَکَ عُمَرُ’’اگرعلی نہ ہوتے توعمر(یعنی میں خود) توبس ماراہی گیاتھا۔‘‘
حضرت علیؓ کی یہ بے مثال علمی استعدادکسی خاص علم تک محدودنہیں تھی،بلکہ وہ خالص دینی وشرعی علوم ہوں،…یاعلم کاکوئی بھی شعبہ اورکوئی بھی صنف ہو،ہرشعبے میں یہی کیفیت نظرآتی تھی،بالخصوص علم القضاء ،علم الفرائض،عربی ادب ، لغت ، اورصرف ونحو کے میدان میں آپؓ کوحجت تسلیم کیاجاتاتھا،عربی لغت اورصرف ونحوکے بڑے بڑے پہنچے ہوئے ماہرین آپؓ ہی کے تلامذہ میں سے تھے۔
ان تمام تراوصاف وکمالات کی وجہ (توفیقِ الٰہی کے بعد) یقینایہی تھی کہ حضرت علیؓ نے اپنے زمانۂ بچپن سے رسول اللہﷺکی وفات تک تقریباًتیس سال کاطویل عرصہ آپ ﷺ کی صحبت ومعیت میں گذارا،اسی طویل اورمسلسل صحبت ومعیت کاہی یہ نتیجہ تھاکہ حضرت علیؓ انتہائی بلندپایہ عالمِ دین تسلیم کئے جاتے تھے،فقہ واجتہادمیں انہیں کامل دسترس ، غیرمعمولی مہارت ،اورمکمل بصیرت حاصل تھی۔
اس علمی مقام ومرتبے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺکی صحبت وتربیت کی بدولت آپؓ اخلاق وکرداراوراعلیٰ انسانی اقدارکے لحاظ سے بھی نہایت عمدہ واعلیٰ شخصیت کے مالک تھے۔رسول اللہﷺکے ساتھ آپؓ کی رفاقت اورصحبت ومعیت کایہ مبارک سلسلہ جس کی ابتداء زمانۂ طفولیت سے ہوئی تھی ،آپ ﷺکی وفات ،اورپھرتجہیزوتکفین،حتیٰ کہ آپﷺ کے جسدِاطہرکوقبرمبارک میں اتارنے کے مراحل تک یہ سلسلہ جاری وساری رہاتھا۔
خلافت کیلئے انتخاب
رسول اللہﷺتادمِ آخرحضرت علیؓ سے انتہائی مسرورومطمئن رہے اورزندگی بھرشفقت وعنایت کامعاملہ فرماتے رہے۔آپ ﷺ کامبارک دورگذرجانے کے بعدخلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے دورمیں بھی حضرت علیؓ کوخاص حیثیت اورقدرومنزلت حاصل رہی ، حضرت ابوبکرؓ اہم فقہی امورمیں ان سے مشاورت کرتے رہے اوران کی اصابتِ رائے پرمکمل یقین واطمینان کا اظہارکرتے رہے۔خلیفۂ دوم حضرت عمربن الخطاب ؓ بھی اپنے دورِخلافت میں بکثرت حضرت علیؓ سے مشاورت کیاکرتے تھے، فتحِ بیت المقدس کے یادگاراورتاریخی موقع پرجب سلطنتِ روم کی طرف سے یہ مطالبہ کیاگیاتھاکہ فریقین کے مابین ’’معاہدہ‘‘ کے موقع پرمسلمانوں کے خلیفہ خودبیت المقدس آئیں ،تب حضرت عمرؓ نے اکابرصحابۂ کرام سے اس سلسلہ میں مشورہ کیاتھا اوران کی رائے دریافت کی تھی ،اس موقع پربعض حضرات نے یہ مشورہ دیاتھاکہ’’ اے امیرالمؤمنین! آپ کووہاں نہیں جاناچاہئے ، تاکہ رومیوں کویہ احساس ہوکہ ہم مسلمان ان کاہرمطالبہ تسلیم کرناضروری نہیں سمجھتے،اوریوں ان پرہماری مزیدہیبت قائم ہوجائے۔
حضرت علیؓ نے یہ مشورہ دیاتھاکہ ’’اے امیرالمؤمنین!آپ کووہاں جاناچاہئے ، تاکہ اس طرح فریقین کے مابین خیرسگالی اورباہمی اعتمادواطمینان کے جذبات پروان چڑھ سکیں‘‘۔حضرت عمرؓ نے اسی رائے کوپسندکرتے ہوئے خودبیت المقدس جانے کافیصلہ فرمایاتھا، اورمدینہ سے اپنی اس غیرموجودگی کے موقع پرحضرت علیؓ کوہی اپنانائب وجانشین مقرر کیاتھا۔
حضرت عمرؓ نے اپنی شہادت سے قبل اپنے جانشین کے طورپرجن چھ افرادکے نام تجویزکرتے ہوئے یہ وصیت کی تھی کہ یہی چھ افرادباہمی مشاورت کے بعدتین دن کے اندرآپس میں سے ہی کسی کو ’’منصبِ خلافت ‘‘کیلئے منتخب کرلیں،ان چھ افرادمیں حضرت علیؓ بھی شامل تھے۔
اسی طرح خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان ؓ کے زمانۂ خلافت کے دوران بھی حضرت علیؓ کوبدستوریہی قدرومنزلت حاصل رہی،حضرت عثمانؓ مختلف دینی وانتظامی امورمیں ہمیشہ حضرت علیؓ سے مشاورت کرتے رہے،جبکہ حضرت علی ؓ بھی ہمیشہ ان کی معاونت کرتے رہے،خصوصاًباغیوں نے جب شورش برپاکی ، اس نازک ترین موقع پرحضرت علیؓ ہی باربارمختلف تدبیروں کے ذریعے ان باغیوں کوسمجھانے بجھانے اوررفع دفع کرنے کی کوششیں کرتے رہے،مزیدیہ کہ اُن دنوں حضرت علیؓ نے اپنے دونوں جوان بیٹوں یعنی حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓکومسلسل حضرت عثمانؓ کے گھرکی نگرانی پرمقررکئے رکھاتاکہ شرپسندکوئی موقع پاکرگھرکے اندرداخل نہ ہوسکیں، غرضیکہ ان دونوں جلیل القدرشخصیات میں باہم بڑی محبتیں اورقربتیں رہیں،اورآپس میں یہ ہمیشہ شیروشکرکی مانندرہے۔
اورپھرحضرت عثمان ؓ کے گھرکے طویل محاصرے کے بعدآخرجب انہیں نہایت بیدردی کے ساتھ شہیدکردیاگیا،اوریہ المناک خبرحضرت علیؓ تک پہنچی توآپؓ حیرت زدہ رہ گئے،اورانتہائی رنجیدہ ودل گرفتہ ہوگئے،حتیٰ کہ شدتِ غم کی وجہ سے آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے،کیونکہ باقی تمام صحابۂ کرام کی طرح یہ خبران کیلئے بھی بالکل غیرمتوقع تھی،دراصل اس بغاوت اورفتنے کے موقع پران سب حضرات کایہی خیال تھاکہ یہ وقتی معاملہ ہے،کیونکہ دوردرازکے علاقوں سے آئے ہوئے یہ باغی کچھ عرصے بعدتنگ آکرخودہی واپس لوٹ جائیں گے،اور ان باغیوں کی سرکوبی کی غرض سے بعض دوردرازعلاقوں سے اسلامی لشکرکی مدینہ کی جانب روانگی کی خبریں بھی موصول ہورہی تھیں، لہٰذاان تمام حضرات کایہی خیال تھاکہ اس معاملے کاکوئی نہ کوئی مناسب حل ضرورنکل آئے گا یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ اس فتنے کی آگ کوبجھانے کی غرض سے حضرت عثمان ؓ خودہی ’’منصبِ خلافت‘‘سے دستبرداری اختیارکرلیں گے،کیونکہ باغیوں کامحض یہی مطالبہ تھا،جان لینے دینے کاتووہاں کوئی معاملہ ہی نہیں تھا۔بہرحال اس غیرمتوقع ظلم وبربریت کی وجہ سے حضرت علیؓ بھی انتہائی صدمے اوررنج وغم کی کیفیت سے دوچارتھے۔
خلیفۂ سوم امیرالمؤمنین ذوالنورین حضرت عثمان بن عفان ؓ کی شہادت کے اس المناک واقعے کے بعدایک اہم ترین معاملہ یہ درپیش تھاکہ منصبِ خلافت کی ذمہ داری اب کون سنبھالے گا؟ظاہرہے کہ اُس معاشرے میں یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں تھی کہ حضرت علیؓ سے بڑھ کرکوئی اوراس منصب کااہل نہیں ہوسکتا۔چنانچہ لوگوں نے بار بارحضرت علیؓ کے سامنے اس بات کامطالبہ اوراصرارکیاکہ آپ یہ منصب سنبھال لیجئے، لیکن حضرت علیؓ ہرباریہی جواب دیتے رہے کہ ’’ہمارے خلیفہ قتل کردئیے گئے،میں ان کی جگہ منصبِ خلافت سنبھال کربیٹھ جاؤں،مجھے ایساکرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے،لہٰذاکسی اورکوتلاش کرو‘‘لوگوں کی طرف سے اصرار جبکہ حضرت علیؓ کی طرف سے معذرت اورانکار۔چندروزیہی سلسلہ چلتارہا،آخر مہاجرین وانصارمیں سے سرکردہ افراد پرمشتمل متعددحضرات نے حضرت علیؓ سے ملاقات کی اورانہیں منصبِ خلافت سنبھالنے پرآمادہ کیا،تب آپؓ نے ان کی بات کوردکرنامناسب نہیں سمجھا اوراپنی طرف سے آمادگی کااظہارکیا۔چنانچہ سن ۳۵ ہجری میں ماہِ ذوالحجہ کے آخری دنوں میں مدینہ منورہ میں حضرت علیؓ نے خلیفۂ چہارم کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی۔
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)