بستر پر لیٹے کوئی گھنٹہ گزر چکا تھا لیکن نیند ہماری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ دماغ میں بس یہی خیالات گردش کر رہے تھے کہ صبح نماز سے پہلے ہی غسل کرکے مسجد جانا ہے پھر مسجد سے ہی عیدگاہ روانہ ہونا ہے۔ خیالات نے مزید اڑان بھری تو تصور ہی تصور میں سفید عید کا جوڑا، ہاتھ میں گھڑی، ناک پر ٹکی نئی عینک اور پاؤں میں سروس کی جوتی پہنے ہم نگاہوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے۔ خیالات کب خواب بنے کچھ یادنہیں۔
صبح آنکھ کھلی تو سوچا جلد سے جلد غسل کرکے میل کچیل سے آزاد ہوجائیں اور مسجد جائیں، لہٰذا غسل خانے کا رخ کیا۔ بدن پر پانی لگتے ہی کپکپی طاری ہوگئی، غصے اور مایوسی کی ملی جلی کیفیت میں غسل خانے سے آواز لگائی۔ ’’یہ پانی گرم کیوں نہیں آرہا؟‘‘ باہر سے بتایا گیا کہ رات کو گیزر چلانا بھول گئے تھے ہمیں فوراًہی احساس ہوا کہ پانی ضائع ہورہا ہے لہٰذا ٹونٹی بند کی کپڑے پہنے اور حمام کا رخ کیا۔ نئے کپڑے، جوتی، گھڑی اور عینک بھی ساتھ لے چلے۔
حمام کے غسل خانے میں ہماری نگاہیں کھونٹی تلاش کرنے میں مصروف رہیں مشکل سے ایک کیل نظر آئی۔ جلدی سے نئے کپڑے اس پر لٹکائے اب مسئلہ یہ تھا کہ اتارے گئے کپڑے کہاں لٹکائیں؟ لہٰذا کپڑے دوبارہ پہنے اور کھونٹی کی تلاش میں غسل خانے سے باہر نکل آئے سامنے نظر پڑی تو خوشی سے بانچھیں کھل گئیں ایک عدد کھونٹی غسل خانے کے دروازے کے عین سامنے ہمارے کپڑوں کا انتظار کر رہی تھی، اب فیصلہ یہ کرنا تھا کہ نئے کپڑے باہر لٹکائیں یا پرانے؟ کافی سوچ و بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ نئے کپڑے ہی باہر لٹکائے جائیں۔ اس فیصلہ کی تائید میں ہماری عقل سلیم نے دو دلیلیں پیش کیں اگر نئے کپڑے اندر لٹکائے گئے تو گیلے ہوجائیں گے اور دوسری یہ کہ پرانے کپڑے لٹکانے کے لیے نئے کپڑے پہن کر باہر آنا پڑے گا لہٰذا ہم نے عقل کے فیصلے کو اپنی چاہت اور اندیشوں پر ترجیح دی۔
اطمینان سے غسل کیا پرانے کپڑے پہنے تاکہ نئے کپڑے لا سکیں دروازہ کھولتے ہی ہمارا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا کیا دیکھتے ہیں سامنے کھونٹی ہے نہ کپڑے بے یقینی کے عالم میں نگاہیں ادھر ادھر گھمائیں تو باہر گلی میں دو شخص کپڑے ہاتھ میں لیے دوڑتے نظر آئے، ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ سرپٹ ان کے پیچھے دوڑ پڑے۔ انہوں نے ہمیں آتے دیکھا تو رفتار مزید بڑھا دی اب منظر یہ کہ منہ ان کا ہماری طرف اور رخ مخالف سمت تھا فاصلہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتا جارہا تھا کچھ دور جانے کے بعد ان میں سے ایک کا فاصلہ کم ہونا شروع ہوگیا لیکن ہمارے کپڑوں کا بوجھ جن ہاتھوں میں تھا ان کا فاصلہ مسلسل بڑھ رہا تھا۔ ہم نے اپنی رفتار بڑھانے کے لیے پیروں کو جوتی سے آزاد کردیا، اب ہماری رفتار حیران کن حد تک بڑھ چکی تھی (جو اس سے پہلے یا بعد میں کبھی نہ حاصل ہوسکی۔) آناً فاناً ہم پہلے شخص تک پہنچ گئے لیکن ’’عقل کُل‘‘ نے فوری طور پر دوسرے شخص تک پہنچنے کا فیصلہ صادر کیا اور ہم پہلے شخص کو غصیلی نگاہوں سے نظر انداز کرتے ہوئے دوسرے کی طرف متوجہ رہے اور سیدھے دوڑتے چلے گئے (کیونکہ ہمارے کپڑے اسی کے پاس تھے۔) کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد احساس ہوا کہ دوسرے تک پہنچنے سے پہلے ہی تھک کر گر جائیں گے کیوں نہ پہلے کو ہی قابو کر لیا جائے پھر اس کے ذریعے کپڑوں تک پہنچا جائے، یہ خیال آتے ہی ہم واپس پلٹے اب جو منظر ہمارے سامنے تھا اس نے تو ہمارے پیروں تلے زمین ہی کھسکا دی جو جوتیاں ہم نے رفتار بڑھانے کے لیے اپنے پیروں سے کھسکائی تھیں وہ شخص ان جوتیوں کو سمیٹے کھسک رہا تھا۔ اس کے اندازسے ہمیں یوں محسوس ہوا کہ جیسے وہ ہمارا شکریہ ادا کر رہا ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا، ابھی ہم افسوس اور غمی کی کیفیت سے نکلنے نہ پائے تھے کہ نماز عید کا خیال آیا، وقت دیکھنے کے لیے جو کلائی نگاہوں کے سامنے کی تو یاد آیا کہ گھڑی تو نئے کپڑوں کی جیب میں ہے۔ کپڑے، جوتی اور پھر گھڑی کی محرومی نے ہماری آنکھیں نم کردی تھیں، آنسو صاف کرنے کے لیے عینک اتارنا چاہی تو آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا، منہ سے بس اتنا ہی جملہ نکل سکا ’’اوہ عینک تو۔۔۔، سر پر پاؤں رکھ کر دوڑے (کیونکہ پاؤں میں جوتی نہ تھی) اب کے دوڑ حمام کی طرف تھی، حمام پہنچے تو معلوم ہوا عینک پہ بھی ہاتھ صاف ہوچکا ہے حالت یہ کہ کاٹو تو خون نہیں، تسلی کے لیے ہر اس جگہ نگاہ ماری جہاں عینک رکھے جانے کا امکان تھا لیکن عینک ہو تو ملے۔ بھاری دل اور بوجھل قدموں کے ساتھ بیرونی دروازے سے باہر نکل آئے، مایوسی اور محرومی کے احساسات نے ہمیں پوری طرح گھیر رکھا تھا اور ہم نماز عید کے لیے جانے والے دیگر ہم عمروں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، اتنے میں ابو جان کی آوازکانوں میں پڑی، شدت غم میں یوں محسوس ہوا جیسے آواز بڑی دور سے آرہی ہو، ہم نے نگاہ اٹھا کر دیکھا مگر ابو جان کہیں نظر نہ آئے، یک دم آواز قریب سے آتی محسوس ہوئی۔ احمد۔۔۔احمد ۔۔۔ او احمد!نماز کا وقت ہوگیا ہے، نماز کی تیاری کرو جلدی سے، ہم نے روتے ہوئے کہا: ابو جان! ہم نماز کے لیے کیسے جائیں؟ ہمارے کپڑے، چپل، گھڑی اور عینک سب کچھ چوری ہوگیا ہے۔ ابو جان نے جھنجھوڑتے ہوئے کہا: دماغ تو نہیں چل گیا تمہارا؟ کیا بڑ بڑا رہے ہو؟ جلدی سے اٹھو، فجر کی نماز پڑھو، آکر عید کی تیاری کرنا! ہم ناقابل بیان خوشی سے سرشار پلک جھپکتے میں اٹھ کر بیٹھ گئے اور اﷲ کا شکر ادا کیا کہ یہ خواب تھا۔
فجر کی نماز پڑھی پھر عید کی تیاری کرکے عیدگاہ چل دیے، راستے میں کھڑے اپنے کچھ ہم عمروں کو دیکھ کر ہماری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، کیونکہ ان کے چہرے پر ہمیں وہ ہی حسرت، مایوسی اور احساس محرومی کے پہرے دکھائی دیئے جو خواب میں ہمارے چہرے پر تھے۔ ان کی نگاہیں ہم سے پوچھ رہی تھیں کیا عید صرف تمہارے لیے ہے؟
Load/Hide Comments