سوال :السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته !
مجھے یہ پوچھنا ہے کہ دو مہینے پہلے کسی کے پاس پانچ لاکھ روپے آئے تو اب اس رقم پہ زکوٰۃ ابھی دینی ہوگی یا پھر سال پورا ہونے پر دینی ہوگی?
الجواب باسم ملہم الصواب
وعلیکم السلام و رحمة الله و بركاته
مذکورہ صورت میں اگر آپ کے پاس اس پانچ لاکھ سے پہلے نصاب (ساڑھےسات تولہ سونایا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ان دونوں کو ملاکر چاندی کے برابر مالیت کاہونا)کے برابر رقم تھی اور اس رقم پر سال بھی گزر چکا تھااور یہ پانچ لاکھ زکوۃ ادا کرنے کی تاریخ سے پہلے آئے تو پھر کل رقم کی زکوٰۃ نکالنی ہوگی۔البتہ اگر صرف یہی پانچ لاکھ روپے دو ماہ پہلے آئے ہیں اور اس سے پہلے آپ کسی نصاب کے مالک نہیں تھے تو پھر سال گزرنے سے پہلے ان پانچ لاکھ کی زکوۃ واجب نہیں تاہم سال گزرنے کے بعد جتنی رقم ان پانچ لاکھ سے بچ گئی اس کی زکوۃ نکالنی ہوگی۔
⚜️وشرط کمال النصاب … في طرفي الحول فی الابتداء للانعقاد وفی الانتھاء للوجوب فلا یضر نقصانہ بینھما، فلو ھلک کلہ بطل الحول (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب زکاة المال، ۳: ۲۳۳، ۲۳۴)
⚜️إذا کان النصاب کاملاً فی ابتداء الحول وانتھائہ فنقصانہ فیما بین ذلک لا یسقط الزکاة،…… إلا أنہ لا بد من بقاء شیٴ من النصاب الذي انعقد علیہ الحول لیضم المستفاد إلیہ؛ لأن ھلاک الکل یبطل انعقاد الحول؛ إذ لا یمکن اعتبارہ بدون المال (تبیین الحقائق۱: ۲۸۰، ط: المکتبة الإمدادیة، ملتان، باکستان)
⚜️اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے پاس کم از کم نصاب کے بقدر مال زکوة سال کے شروع میں اور سال کے اخیر میں پایا جائے اور درمیان سال میں اس کا کچھ حصہ، مثلاً دو چار روپے باقی رہے، مکمل طور پر نصاب ختم نہ ہوجائے ، پس اگر سال کے کسی مہینہ یا تاریخ میں کچھ بھی نصاب باقی نہیں رہا، یعنی: ایک دو روپے بھی باقی نہیں رہے تو سال کا حساب ختم ہوجائے گا اور دوبارہ نصاب مکمل ہونے کے بعد سال کا حساب شروع ہوگااور نصاب یا اس کا کچھ حصہ باقی رہتے ہوئے درمیان سال میں موجود نصاب کی جنس کا جو نیا مال آئے گا ، اس پر الگ سے سال کا حساب نہیں ہوگا؛ بلکہ وہ پہلے موجود نصاب کے ساتھ شامل ہوجائے گا اور اُس کا سال مکمل ہونے پر اِس نئے مال پر بھی حکماً سال مکمل شمار کیا جائے گا.
دارالعوام دیوبند.
واللہ اعلم بالصواب .