جسم گدوانا

فتویٰ نمبر:3057

سوال اورغسل  نہیں ہوتا براۓ مہربانی اس کے بارے میں بتا دیں!

مسٸولہ: فاطمہ کمال۔ 

الجواب حامداو مصلیا

حدیث شریف میں بدن گدوانے،نام کھدوانے،چھدوانے،اس میں رنگ بھروانے تمام کاموں کی صراحت کے ساتھ ممانعت آئی ہے اوراس فعل پر لعنت فرمائی گئی ہے۔

اس لیے اگر کسی نے یہ کام کیا تو اس نے حرام عمل کیا، جس پر اسے گناہ ملے گا،بہرحال یہ عمل لاعلمی میں کیا گیا ہے اس وجہ سے امید ہے کہ توبہ استغفار کرنے سے معاف ہو جائے گا۔

اب اگر گودنے یا ٹیٹو بنوانے کے بعد اس کو بغیر کسی تکلیف و دقت کے چھڑایا جاسکتا ہے تو اسکو چھڑانا واجب ہوگا اور بغیر چھڑوائے وضو اور غسل نہ ہوگا اور اگر ایسا ہے کہ یہ جسم کا ایک حصہ بن گیا، جس کو مشقت وتکلیف (سرجری) کے بغیر زائل کرنا ممکن نہیں ہے تو یہ ایک مجبوری ہوگی اور اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے کہ”لایکلف اللہ نفسا الّا وسعھا“ ،لہذا اس مجبوری کی صورت میں فقہی قاعدہ “الضرورات تبیح المحظورات“ (یعنی بعض جگہ ضرورت اور مجبوری کی وجہ سے ناجائز اور حرام شئی پر عمل کرنے کی گنجائش ہوتی ہے) کے اصول کے تحت اس صورت میں بھی وضو اور غسل ہوجائے گا۔

“ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم لعن الواشمة والمستوشمة …الخ” (صحیح بخاری ج:۲ ص:۸۷۹)

“عن أبی ریحانة قال: نھٰی رسول الله صلی الله علیہ وسلم عن عشر عن الوشر والوشم والنتف“ رواہ أبو داود والنسائی۔” (مشکوٰة ص:۳۷۶)

“ولا یضر بقاء اثر اللون وریح فلا یکلف فی ازالتہ الی ماء حارّ أو صابون ونحوہ..الخ“ (شامی زکریا۱ص۳۸-۵۳۷)

“والمراد بالأثر اللون والریح، فان شق ازالتھما سقطت ..الخ“

(البحراالرائق۱ص۲۳۸)

(ومثلہ فی مجمع الانھر۱ص۹۹)

(مستفاد: کتاب المسائل۱ص۴۵-۱۴۶)

و اللہ سبحانہ اعلم

بقلم : بنت عقیل قریشی

قمری تاریخ:15 ربیع الاول

عیسوی تاریخ:23 دسمبر 2018ع

تصحیح وتصویب:

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں