سوال: کیا جھینگا مکروہ ہے ؟
الجواب حامداومصلیاً
ائمہ ثلاثہ یعنی حضرت امام مالک ، امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک جھینگا حلال ہے کیونکہ ان حضرات کے نزدیک چند آبی جانوروں کے سوا تمام آبی جانور حلال ہیں لیکن احناف ؒ کے نزدیک مچھلی کے سوا تمام آبی جانور حرام ہیں اس لیے علماء احنافؒ کا جھینگے کی حلت وحرمت کے بارے میں اختلاف ہے بعض علماء احناف نے اس کو مچھلی کی ایک قسم قرار دے کر حلال کہا ہے جبکہ دوسرے بعض علماء ( جن میں موجودہ دور کے بعض ماہرین حیوانات بھی شامل ہیں ) کی تحقیق یہ ہے کہ جھینگا مچھلی کی قسم نہیں کیونکہ اس میں مچھلی کی علامات نہیں پائی جاتیں لہذا یہ حرام ہے اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ جھینگا کھانے سے پرہیز کیا جائے کیونکہ اس مسئلہ کا تعلق حلت و حرمت سے ہے اور حلت وحرمت کے باب میں حرمت کو ترجیح ہوتی ہے البتہ چونکہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے اورعلماء ثلٰثہ اور بعض حنفیہ اس کی حلت کے قائل ہیں اس لیے ان علماء کی تحقیق پر عمل کرتے ہوئے جو لوگ اس کو کھاتے ہیں ان پر نکیر اور لعن وطعن نہ کیاجائے ۔اور جو جھینگا نہ کھاتا ہو اس پر لعن طعن نہ کی جائے ۔
تکملۃ فتح الملھم :3/424۔427(الناشر :داراحیاء التراث العربی )
وما الرویان او الاربیان الذی یسمی فی اللغلۃ المصریۃ ( جمیری ) وفی اللغۃا لاردیۃ ( جھینگا ) وفی الانکیلیزیۃ shrimp اورprawn فلا شک فی حلتۃ عند الائمۃ الثلاثۃ، لان جمیع حیوانات البحر حلال عندھم واما عند الحنفیۃ ،فیتوقف جوازہ علی انہ سمک اولا، فذکر غیر واحد من اھل اللغۃ انہ نوع من السمک : قال ابن درید فی جمھرۃ اللغۃ (414:3) ازبیان ضرب من السمک واقرہ فی القاموس وتاج العروس (145:1)وکذلک وال الدمیری فی حیاۃ الحیوان (1:473 ) :”الروبیان ھو سمک صغیر جدا احمر” وافتی غیر واحد من الخیفۃ بجوازہ بناء علی ذلک ، مثل صاحب الفتاویٰ الحمادیہ وقال شیخ مشایخنا التھانوی رحمۃ اللہ فی امداد الفتاویٰ (103:4) لم یثبت بدلیل ان للسمک خواص لازمۃ تنتفی السمکیۃ بانتفائھا ،فالمدار علی قول العدول المبصرین۔۔۔۔ وان حیاۃ الحیوان للدمیری الذی یبحث عن ماھیات الحیوان یصرح بان الروبیان ھو سمک صغیر ۔۔۔فانی مطمئن الی الآن بانہ سمک،ولعل اللہ یحدث بعد ذلک امراً ولکن خیرا علم الحیوان الیوم لا یعتبرون سمکا ویذکرون کنوع مستقل ویقولون : انہ من اسرۃ السرطان دون السمک وتعریف السمک عندا لعلماء ۔۔۔