جاندار کی تصاویرکے پرنٹ والے لباس پہننے کا حکم

فتویٰ نمبر:562

 سوال:آج کل کچھ کپڑوں پر پرندے بنے ہوئے ہوتے ہیں یا کچھ کپڑوں پر ایسا پرنٹ ہوتا ہے کہ کوئی شکل محسوس ہوتا ہے۔ تو کیا ایسے کپڑوں میں نماز ہو جاتی ہے؟

 جواب:اولا تو جاندار تصاویر کے پرنٹ والا لباس لینا ہی درست نہیں ہے چاہے تصویر چھوٹی ہو یا بڑی ہو ، اس کے باوجوداگر کسی نے لے لیا ہے تو اس میں نماز کا حکم یہ ہے کہ اگر کپڑوں پر جاندار کی تصاویر اتنی بڑی ہوں کہ اگر کپڑا زمین پر رکھیں اور کھڑے ہوکر دیکھنے پرتصاویر واضح نظر آئے تو ایسالباس پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی یعنی ناجائز ہے، اور اگرکھڑے ہوکر دیکھنے پر ان کا تصویر ہونا ظاہر نہ ہو یا بہت دھندلی محسوس ہو ہوتوایسے لباس میں نماز تو ادا ہوجائے گی لیکن بہتر نہیں ہے۔

نوٹ: سوال سے منسلکہ تصاویری کپڑوں میں سے پہلی دو کپڑوں کی تصاویر مجھے بڑی معلوم ہوتی ہیں، تیسرے کپڑے میں ایک پرندہ (بغلے) کی تصویر تو بڑی معلوم ہوتی ہے لیکن باقی تصاویر بہت چھوٹی ہیں، اور چوتھی تصویر میں پھول کے اندر دو نقطوں اور پھول کی جڑ کی وجہ سے تصویر کا شبہ ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ تصویر نہیں ہے، نیز مذکورہ اصول کی روشنی میں آپ خود بھی کپڑا سامنے رکھ کر معاینہ کرلیں۔
الدر المختار – (1 / 648)
( أو كانت صغيرة ) لا تتبين تفاصيل أعضائها للناظر قائما وهي على الأرض ذكره الحلبي
حاشية ابن عابدين – (1 / 648)
قوله ( لا تتبين الخ ) هذا أضبط مما في القهستاني حيث قال بحيث لا تبدو للناظر إلا بتبصر بليغ كما في الكرماني أو لا تبدو له من بعيد كما في المحيط ثم قال لكن في الخزانة إن كانت الصورة مقدار طير يكره وإن كانت أصغر فلا
بدائع الصنائع، دارالكتب العلمية – (1 / 116)
ولو صلى على هذا البساط فإن كانت الصورة في موضع سجوده يكره لما فيه من التشبه بعبادة الصور والأصنام، وكذا إذا كانت أمامه في موضع؛ لأن معنى التعظيم يحصل بتقريب الوجه من الصورة، فأما إذا كانت في موضع قدميه فلا بأس به لما فيه من الإهانة دون التعظيم، هذا إذا كانت الصورة كبيرة، فأما إذا كانت صغيرة لا تبدو للناظر من بعيد فلا بأس به؛ لأن من يعبد الصنم لا يعبد الصغير منها جدا،
المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة – (5 / 136)
وصورة الحيوان إن كانت صغيرة بحيث لا تبدو للناظر من بعيد لا يكره اتخاذها والصلاة إليها؛ لأن هذا مما لا يعبد،
الفتاوى الهندية – (1 / 107)
ويكره أن يصلي وبين يديه أو فوق رأسه أو على يمينه أو على يساره أو في ثوبه تصاوير وفي البساط روايتان والصحيح أنه لا يكره على البساط إذا لم يسجد على التصاوير وهذا إذا كانت الصورة كبيرة تبدو للناظر من غير تكلف. كذا في فتاوى قاضي خان ولو كانت صغيرة بحيث لا تبدو للناظر إلا بتأمل لا يكره وإن قطع الرأس فلا بأس به،
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمد عاصم عصمہ اللہ تعالی
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں