دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:137
عرض یہ ہے کہ چند روز قبل میرے ایک عزیز نے مجھے ایک تحریر دکھائی جس میں کوہاٹ کے ایک عالم دین نے نماز جنازہ کے بعد دعا کو نہ صرف جائز بلکہ مستحسن قرار دیا ہے جس پر موصوف نے متعدد دلائل ذکر فرمائے ہیں۔
علمائے کرام، مفتیان عظام کی خدمت عالیہ میں مذکورہ تحریر کی فوٹوکاپی اور اس کے ساتھ ہی دوسرے کاغذ پر فوٹو کاپی کے مندرجات کو واضح طور پر لکھ کر ارسال کیا جا رہا ہے تاکہ آپ حضرات مذکورہ دلائل کا بنظر غائر مطالعہ فرمائیں اور نماز جنازہ کے بعد دعا کی شرعی حیثیت کی وضاحت فرمائیں۔ اس سلسلے میں حضرات علماء دیوبند کا صحیح مسلک اور طرز عمل بھی تحریر فرمائیں۔ براہ کرم مذکورہ دلائل سے پیدا ہونے والے شبہات کا مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں تاکہ ان دلائل کا صحیح محمل واضح ہوجائے۔
اور
نماز جنازہ کے بعد دعا کا حکم بھی روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے اللہ تعالیٰ ہمیں حق سمجھنے، کہنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پیدا ہونے والے شبہات کی وضاحت:
- دعا بعد الجنازہ کا اصل حکم کیا ہے؟
- کیا احناف کے نزدیک تمام چیزوں میں اصل اباحت ہے تو کیا اس( اباحت ) سے دعا بعدالجنازہ پر استدلال درست ہو سکتا ہے؟
- اگر درست نہیں ہو سکتا منسلکہ ورق پر مختلف کتب کی جو عبارات پیش کی گئی ان کا صحیح مہمل کیا ہوگا؟
- کیا دعا بعدالجنازہ کی ممانعت کی کوئی مستقل فقہی دلیل ہے؟
- عہد رسالت یا عہد صحابہ کے حوالے سے اگر کوئی دلیل ہو تو وہ بھی تحریر فرمائیں۔
- جب دعا مانگنا مامور بہ غیر موقت ہے تو نماز جنازہ کے بعد دعا مانگنے سے کیوں منع کیا جاتا ہے؟
- مذکورہ حدیث شریف کے جز “ما سکت عنہ فھو عفو” سے دعا بعد الجنازہ کا ثبوت ملتا ہے یا نہیں؟ ثبوت نہ ملنے کی صورت میں حدیث شریف کا صحیح مطلب بیان فرمائیں۔
- منسلکہ وقت کے مطابق جب “کل بدعة ضلالة ” کی حدیث میں عموم نہیں بلکہ بدعت محمود و مذموم بھی ہوتی ہے تو دعا بعدالجنازہ کو کیسے بدعت کہا جا سکتا ہے؟ اس حدیث کا صحیح بیان فرمائیں۔
- لا یقوم بالدعاء کا صحیح مطلب کیا ہے ؟کیا یہ واقعی مؤول ہے؟ جیسا کہ منسلکہ ورق میں فتاوی محمودیہ کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے؟
المستفتی
ریاض الرحمان
متعلم جامعہ دارالعلوم کراچی
حامداومصلیا
اما بعد!
میرے محترم حضرات ہر دور کا اپنا فتنہ ہوتا ہے موجودہ دور کا سب سے بڑا فتنہ میرے ناقص خیال کے مطابق سلفی فتنہ ہے لیکن اس سے زیادہ جو اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں اور دیوبندیت کو فخر سمجھتے ہیں مگر دراصل وہ سلفیت کی تحریر کو دیوبندیت کی آڑ میں آگے بڑھاتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں ہر نماز جنازہ کے بعد شور کرتے ہیں چلو چلو نماز جنازہ کے بعد دعا نہیں ہے بدعت ہے اس کو غیر جانبدارانہ طریقے سے دونوں کے دلائل ذکر کرتے ہیں مانعین دعا کہتے ہیں:
- کہ نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں
- کچھ عربی فتاوی جات کا حوالہ دیتے ہیں ” لا یقوم بالدعاء”
- اصل تمام چیزوں میں توقف ہے جیسا کہ” ر اہ سنت” کے مصنف نے بیان کیا ہے دوسرا فریق دعا کو جائزاور امر مستحسن کہتے ہیں ان کے دلائل حسب ذیل ہیں
١۔ احناف کے نزدیک تمام چیزوں میں اصل اباحت( جواز )ہے توقف نہیں۔
قاضی خان نے فتاویٰ ھندیہ کےج ٣ ص ٤٠٠ پر لکھتے ہیں”والاصل فی الاشیاء الاباحۃ” قاضی خان کا حنفی ہو نا مسلم ہے لہذا دعا بعدالجنازہ باعتبار الاصل مباح ہے کیونکہ دعا نہ کرنے کی دلیل منع موجود نہیں۔
٢۔ دعا بعد الجنازہ نہ مکروہ ہے نہ حرام ہے کیونکہ الاشباہ والنظائر نے ص٨،٩ پر حرام اور مکروہ کی تعریف کی ہےحرام “ما ثبت منہ بدلیل قطعی “
مکروہ “ما ثبت المنع عنہ بدلیل ظنی” جب یہ دلیل منع نہیں تو قطعی اور ظنی میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ابو داود شریف ج ٢ ص ٢٨٠ پر مولانا نظر الحسن دیوبندی لکھتے ہیں ظاہر بات ہے کہ مانعین دعا کے پاس دعا نہ کرنے کی دلیل مستقل نہیں ہےتو نتیجہ یہ ہوا کہ دعا بعد الجنازہ باعتبار الاصل مباح ہے۔ اثبات دعا کے لیے أدعو ربكم کافی ہے کیونکہ مفعول فیہ کو برائے تعمیم حذف کیا گیا ہے۔ (مختصر المعانی)
دعا مانگنا ایک مامور بہ غیر موقت ہے جیسا کہ ذکر کے لیے کوئی قید نہیں۔ دعا کے لئے کوئی قید نہیں۔
٣۔ ملا علی قاری “شارح مشکوٰۃ شریف کے ج ٢ ص ٢٥٩”باب ما یحل اکلہ و ما یحرمہ “کی تشریح کرتے ہیں“قدم الحلال لانہ اصل وضعا و المطلوب شرعا “
٤۔ مصنف نور الانوار ملا جیون رحمتہ اللہ علیہ نے نورالانوار کے ص ١٩٧ پر لکھتے ہیں” لان الاباحت اصل فی الاشیاء”
٥۔ علامہ شامی نے ج١ ص ١٠٥ پر تحریر کرتے ہیں” اقول وقد صرح في التحرير بأن المختار أن الأصل الاباحة عند الجمهور من الحنفيه ” کہ احناف کا مختار مذہب اباحت (جواز )ہے۔
٦۔ صاحب بدایہ جو کہ احناف کی مشہور کتاب ہے بدایہ کے جلد ٢ ص ٤٠٨ پر ہے “والاباحۃ اصل“
٧۔ تفسیرمدارک جو کہ خالص حنفی تفسیر ہےج ١ ص٣٠ پر علي أن الأشياء التي يصح أن ينتفع خلقت مباحة الأصل ۔ ساتھ یہ بھی اضافہ کرتے ہیں کرخی اور امام ابو بکر کا مذہب بھی یہی ہے۔
٨۔ تفسیر روح المعانی اسی آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں واستدل كثير من أهل أهل السنة الحنفية والشافعية با لآیۃ علي الاباحۃالأشياء النافعة (روح ج ١ ص٢١٥ )
٩۔ احکام القرآن للجصاص حنفی ج ٢ ص ٣١٢ احل لکم الطیبات کے تحت رقم طراز ہیں“جائز أن يحتج لظاهره في اباحة جميع الأشياء المستدله الا ما خصہ الدليل ” ان تمام دلائل سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ دعا بعد الجنازہ ایک مستقل عمل ہے جائز اور مباح ۔ ممانعت کی کوئی دلیل منکرین دعا کے پاس نہیں ۔مندرجہ بالا دلائل سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اصل اباحت ہے توقف نہیں۔
١٠۔ مانعین دعا کے پاس صرف ایک دلیل کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں محل نہیں قول لو موجود ہے جو مشکاۃ جلد ثانی ج ٢ ص ٣٦٢ پر ہے“وما سکت عنہ فھو عفو” کی تشریح مولانا نصیرالدین غرغشتوی مرحوم نے یہ کہا ہے” و علم الاصل الاشیاء الاباحۃ“۔ اس کا دوسرا جواب محدث کبیر مفتی زمانہ محمد فرید صاحب اکوڑہ خٹک فتاویٰ فریدیہ میں یوں کہا ہے کہ یہ سلفی دلیل ہے حنفی دلیل نہیں۔ مولانا محمد فرید صاحب نے فتاوی فریدیہ ج ٣ ص ٥٠ ایک مدلل جواب دیا ہے کہ دعا بعد صلاۃ الجنازہ مباح اور جائز ہے۔ تفسیر روح المعانی ج ٣٨ ص ٥٠ “ترک العمل یتحقق علی ثبوت النہی ” جب دلیل ہی نہیں تو ترک دعا کہاں ۔ مانعین دعا اکثر یہ دلیل دیتے ہیں” کل بدعۃ ضلالہ” یہ حدیث اپنے عموم پر نہیں حاشیہ مشکاۃ پر اس حدیث کی تشریح موجود ہے ۔فتاوی ابن تیمیہ ج ٢٠ پر درج ہے البدعۃ بدعتان ایک محمود اور ایک مذموم ہے۔ کل بدعت میں کل اضافی ہے استغراقی نہیں جیسا کہ” وعلم آدم الاسماء کلھا “ مانعین دعا اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لیے کچھ عربی فتاوی جات ” لا یقوم بالدعاء”کا حوالہ دیتے ہیں لیکن یہ موول ہے۔ فتاوی محمودیہ میں اس کی صراحت ہے لہذا گزارش ہے کہ مانعین دعا اپنے سابقہ موقف پر نظرثانی کریں اور تہہ دل سےحنفیت کا ثبوت دیں، خدا ان کو راہ اور ہم کو صراط مستقیم پر کی توفیق نصیب فرمائے۔
وما علینا الالبلاغ
بندہ بادشاہ خادم انجمن تعلیم القران کوہاٹ پراچگان
مہربانی فرما کر بندہ کو ان مذکورہ دلائل کا جواب دے کر اور صحیح محمل بیان کرکے شکریہ کا ایک موقع اور عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
و السلام علیکم
ریاض الرحمان
الجواب حامداومصلیا
(۱، ۵)__ نماز جنازه خوددعا ہے اس کے بعد دعا کا اہتمام والتزام عہد رسالت، عہد صحابہ ، عہد تابعین و تبع تابعین کے دور میں سے بھی ثابت نہیں، حالانکہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں متعدد جنازے پڑھائے اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے جس طرح آپ علیہ السلام نماز جنازہ پڑھانے کا طریقہ کار، اس کی تکبیرات وغیرہ نقل فرمائیں تواس میں دعابعد الجنازه کوذکر نہیں فرمایا۔ اگر آپ علیہ الصلاة والسلام کسی ایک جنازے کے بعد بھی دعامانگنے کا اہتمام فرماتے تو اتنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیهم اجمعین میں سے کم از کم کوئی ایک صحابی تواس کو ذکر کرتا جبکہ اس بارے میں احادیث طیہ اور آثارصحابہ میں کوئی ایک روایت بھی مذکور نہیں اسی لئے ملاعلی قاری نے فرمایا ہے کہ “جنازه کے بعد دعا کرنا نماز جنازہ میں اضافہ کرنے کے مشابہ ہے” لہذا یہ بدعت ہے جس کا ترک کرنا واجب ہے۔(ماخذه فتاوی عثمانی : ١/ ١١٤١٠٨ )
في المرقاة: ٤/١٧٠
ولايدعو للميت بعد صلاة لانه یشبہ الزیاد ۃفي صلاة الجنازه ۔
في البزاز ية على هامش الهندية ;(٤/٨٠)
لايقوم بالدعاء بعد صلاة الجنائز لانہ دعا مر ۃ لان اکثرهادعاء وكذا في السراجية: ص٧٧ وفی البحر (٢/١٨٣) وفي الخلاصه ( ١/٢٢٥) وفي نفع المفتی ص ٢٠٧ وفی الجامع (١/٢٨٣)
(٢)___ احناف کے نزدیک تمام اشیاء میں (ما سوائے گوشت کے) اصل اباحت ہے مگراس قاعدہ سے دعا بعد الجنازہ پر استدلال کرنا درست نہیں کیونکہ۔۔۔
- مذکور ہ قاعدہ میں اشیاء کے اصلا مباح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کسی شے کے بارے میں دلیل منع وارد نہ ہو توو ہ مباح سمجھی جائے گی جبکہ دعا بعدا لجنازہ سے حضرات فقہاء کرام رحمہم اللہ نے صراحتا منع فرمایا ہے لہذا اس دعا کا اہتمام والتزام کرنا اور نہ کرنے والوں پر نکیرکرنا وغیرہ یہ سب امور بدعت ہیں جو کہ حدیث شریف کی رو سےگمراہی ہے اور دعابعد الجنازه پر اباحت کے مذکور ہ قاعدہ سے استدلال کرنا درست نہیں۔
- نیز یہ کہ مذکوره قاعده عبادات کے علاوہ دیگر اشیا کے بارے میں ہے کیونکہ عبادات کی کیفیت و تعیین خودشارع علیہ السلام کی طرف سے ہوچکی ہے لہذا اب ان عبادات میں کسی قسم کا اضا فہ کرنا دین میں اضافہ کرنا ہے جو کہ بدعت اور گمراہی ہے۔
- اگر بالفرض دعابعد الجنازه کو مذکورہ قاعدہ کی رو سے مباح کر دیا جا ئے توپھر عبادات اور بدعات میں کوئی فرق نہ ر ہے گا ، اس طرح کوئی شخص پانچ فرض نمازوں کے بعدچھٹی نماز پڑھ کر بطور دلیل یہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ نماز پڑھنا اصلا مباح ہے اس لئے مجھے چھٹی نماز پڑھنے کا اختیار ہے حالانکہ یہ بالاتفاق باطل ہے اورایسے طرز عمل سے دین میں اضافہ و تحریف کا دروازہ کھلے گا جو کہ کھلی گمراہی ہے۔
في احكام القرآن للتھانوی :(١/١٨)
ثم کون الأصل عندبعض الحنفية والشافعيہ الابا حة في الأشياء کلھاا لاینافی کون الشی منھاحراما لعينه کالزنا ۔۔۔الخ
فی الشامية :(٤/١٦١)
ان نسبۃ الاباحة الی المعتزلہ مخالف لم فی کتب الاصول ففی ۔۔۔الخ
وفی الاعتصام للشاطبی بحوالہ راہ سنت
ولایصح ان يقال فيما فيه تعبدانه مختلف فيه على القولين هل هو على المنع ام هو على الاباحة بل هو۔۔۔الخ
وفي الہدا ية مع الفتح : ( ٤/ ١٦٥)
الاباحة اصل و في فواتح الرحموت ، (١/٤٥) وفی شرح المجلة لاناسی (١/٢٣)
(٤)__دعا بعد الجنازہ سے فقہائے کرام نےصراحتا منع فرمایا ہے اور اس کو مکروہ لکھا ہے چند فقہی عبارات ملاحظہ ہوں۔
خلاصة الفتاوی( ١/٢٢٥ ) میں ہے۔
الأيقوم الدعاء بعد صلاة الجنازة ۔
فتاوی بزازیہ ( ٤ /۸۰ ) میں ہے۔
لايقوم بالدعاء بعد صلاة الجنائز لانه دعا مرۃ لاناکثرھا دعا
ملا علی قاری مرقاة شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں۔
ولايدعو للميت بعد صلاة الجنازہ لانه یشبہ الزیاد ۃفي صلاة الجنازه ۔
یہی حکم فتاوی سراجیہ (ص٧٧ ) ، البحر الرائق(٢/١٨٣) جامع الرموز ( ١/٢٨٣)اور نفع المفتى والسائل (ص ٧،٦ ) میں مذکور ہے۔
(٦)___ دعا مانگنا بلاشبہ مامور بہ غیر موقت ہے لہذا اگر کوئی شخص جنازہ کےبعد انفرادی طور پر یا دل دل میں میت کیلئے دعا مانگے تو یہ جائز ہے مگر آج کل کے مروجہ طریقے کے مطابق با قاعدہ ہاتھ اٹهانا، اس کا اہتمام و التزام کرنا، اور اس طرح نہ مانگنے والوں پر نکیر کرنا یہ سب امور تو دعا کو مؤقت ومقيد کرنے کے ہیں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے طرز عمل سے ثابت نہیں لہذٰا ان سب کا ترک کرنا ضروری ہے اور مطلق دعا سےدعابعد الجنازہ کے مخصوص موقع پر استدلال کرنا درست نہیں۔
(٧)__ سوال میں ذکر کردہ حدیث شریف کھانے پینے کی اشیاء کے بارے میں ہے لہذا اس سے دعابعد الجنازه پر استدلال کرنا درست نہیں نیز ملا علی قاری نے تصریح فرمائی ہے کہ” ماسکت عنه فھو عفو” سے وه اشیاء مراد ہیں جن کا حکم بیان نہیں کیا گیا جبکہ ماقبل میں ذکر کرد ہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوچکی کہ دعاء بعد الجنازہ کے اہتمام و التزام سے فقہائے متقدمین نے صراحة منع فرمایا ہے کیونکہ کرنے والے اسے نماز جنازہ کا حصّہ سمجھتے ہیں اور عبارات میں اپنی طرف سے اضافہ کرنا اوراس پر اسرار کرنا بدعت میں داخل ہے۔
في المشكوة مع المرقا ة : (٧/٧٤٠)
عن ابن عباس رضی الله عنه قال كان أهل الجاهلية یاکلون اشیاء و یترکون اشياء تقذرا فبعث الله نبيه وانزل كتا به واحل حلاله وحرم حرامه فما أحل فهو حلال وما حرم فهو حرام و ماسكت عنه فهو عفو وتلا” قل لااجد فيما أوحى الى محرما على طاعم يطعمه الاان يكون ميتة أو دما ۔۔۔ الاية”. رواه ابوداؤد ۔
وفي المرقا ة تحته :
( و ماسكت عنه) اى مالم یبین حكمه (فهو عفو ) ای متجاوز عنه لا تواخذون به ۔
(٨)__ جواب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ لفظ بدعت کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ، ایک اصطلاح شریعت میں اور دوسرا لغوی معنی کے اعتبار سے ، پہلے استعمال کے اعتبار سے یعنی اصطلاح شریعت میں بدعت سے مراد وہی بدعت ہے جس کو حدیث شریف میں گمراہی بتایا گیا ہے اور اس سے مراد ہر وہ طریقہ عبا دت ہے جو ثواب کی نیت سے اختیار کیا گیا ہو حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عہد مبارک میں اس کا داعیہ اور سبب موجود ہونے کے باوجود کسی طرح بھی ثابت نہ ہو یعنی نہ قولا نہ فعلا، نہ صراحتا نہ اشارتا اور پھر اس دین کا حصہ سمجھ کر بطور عبادت کیا جائے تووہ اصطلاح شرع میں بدعت سئیہ اور گمراہی ہے اور کسی بدعت اصطلاحی کوبدعت حسنہ نہیں کہاجا سکتا ۔
البتہ دوسرے استعمال یعنی لغوی معنی کے اعتبار سے بدعت کا لفظ کسی نئی چیز کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جوکہ صریح طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نہیں تھی بعد میں کسی ضرورت کی بناء پر اختیار کی گئی ۔ جب ایسی شیئ شریعت کے مخالف نہ ہو تو اس کو بدعت حسنہ کہا جا سکتا ہے جیساکہ دین کی بقاء اور احیاء و اشاعت کے لیے موجودہ طرز کے مدار س ہیں حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں اس طرز کے مدارس نہ تھے تو یہ مدارس شرعی طور پر بدعت نہیں البتہ لغوی معنی کے اعتبار سے انہیں بدعت حسنہ کہا جا سکتا ہے۔
(یہ ایسا ہی ہے جیسے صلاۃ کے لغوی معنی دعا کے ہیں اور اصطلاحی معنی نمازکے ہیں، لفظ دونوں معنی میں استعمال ہوتا ہے اگرچہ نماز میں زیادہ استعمال ہوتا ہے) (ماخذه تبويب : ۹٤/ ۷۵۳)
اب سمجھئے کہ دعابعد الجنازہ کا باقاعدہ اہتمام والتزام کرنا ،اس طور پر کہ اس کو عبادت سمجھا جائے اور دعانہ مانگنے والوں پر نکیر کی جائے ، بدعت میں داخل ہوگا۔ کیونکہ آپ علیہ السلام، اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اس کا داعیہ اور سبب ہونے کے باوجود کبھی بھی مروجہ طریقہ پر دعانہیں مانگی جیسا کہ ما قبل میں تفصیل گزرچکی ۔
(٩)__ لا یقوم بالدعاء مؤول نہیں بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جنازہ کے بعد دعا مانگنے کا اہتمام نہ کیا جائے اور منسلکہ ورق میں جو فتاوی محمودیہ کے حوالہ سے اس کا مؤول ہونا ذکر کیا گیا ، تلاش کے باوجود ہمیں یہ بات نہیں مل سکی بلکہ صاحب فتاوی محمودیہ نے اسی عبارت سے استدلال کرتے ہوئے دعابعد الجنازه کو منع لکھا ہے جیسا کہ مذکورہ فتاوی کی جلد نمبر ١٤ صفحہ نمبر ۲۹۱ پر ہے ۔
سوال : ہمارےعلاقے میں نماز جنازہ کے سلام پھیرنے کے بعد ہاتھ اٹھا كر امام و جملہ مقتدی دعا مانگتے ہیں کیا یہ دعا مانگنا جائز ہے ؟
جواب : خلاصة الفتاوی میں اس کو منع لکھا ہے( لاتقوم بالدعا بعد صلاة الجنازة ) وکذا فیہ (١٠/ ۲۹۲) ،( ١٦/ ٤٦٧) والله تعالى اعلم بالصواب
محمد عمر اشرف غفر لہ
دارالافتاء دارالعلوم کراچی، ١٤
٤ / ٥ /١٤٢٨ ھ
پی ٖڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنے کےلیے لنک پر کلک کریں :https://www.facebook.com/groups/497276240641626/573207479715168/