ڈاکٹر ذیشان صاحب
مغربی طرز فکر کی یونی ورسٹیوں میں میں نے پڑھایا ہے، اپنے تجربات کی روشنی میں میں آپ کے سامنے وہ چند باتیں بیان کرتا ہوں جس سے مجھے مسلمانوں کا استحکام نظر آتا ہے:
- یہ نظریہ بنانا چاہیے کہ دین صرف اپنے لیے نہیں ہے بلکہ سب کے لیے ہے سیرت بھی ہمیں یہی بتاتی ہے۔ہمیں صرف اپنے اور اپنے ادارے کے لیے ہی نہیں معاشرے کےلیے بھی کام کرنا ہے ورنہ بعد کے دور میں دین کے راستے بند ہوجائیں گے۔
- حالات بہت تیزی کے ساتھ فتنے کی طرف جارہے ہیں۔دین دار گھرانوں کے بچے جب ان مغربی اسکولوں میں جاتے ہیں تو پھسل جاتے ہیں۔لمز یونی ورسٹی جو پاکستان کے اندر ہےاس کا حال بہت ہی برا ہے۔میں استاذ صاحب کو وہاں لے گیا تو استاذ صاحب پر کئی دن تک اس کا اثر رہا۔
- ہم معاشرے سے بدگمان رہتے ہیں۔عوام کی بےدینی ہمیں ان سے بدگمان کرتی ہے اور یہی ان تک پیغام پہنچانے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔حالانکہ دنیادار لوگ ہم سے بدگمان نہیں ہیں۔
- فرقہ واریت میں پڑے بغیر کام کرنا چاہیے۔آغاخانی جو میرے ساتھ کام کرتے ہیں وہ بالکل صاف ہیں معاملات میں، ایک پیسے کی ہیرپھیر نہیں کرتے۔لیکن ہمارے نمازی بھائیوں پر غبن کے الزامات آئے۔
- خود احتسابی کیجیے کہ موجودہ خراب حالات کا ذمہ دار میں خود بھی ہوں اور پھر اللہ تعالی سے دعا کیجیے کہ مجھے راہیں سجھائیے!آپ سے جوکچھ ہوسکتا ہے وہ کریں، ممکن ہے کہ اس کے اثرات دس پندرہ سال بعد کہیں ظاہر ہوں۔انفرادی محنت کرنے سے ممکن ہے اللہ تعالی بڑے فیصلے فرمادے۔میزان بنک اور اسلامی بنکاری بھی انفرادی محنتوں کا نتیجہ تھا، اللہ تعالی نے مقبولیت عطا فرمائی۔ لمز میں ذہین بچے بچیاں ہیں ،ان کے سبجیکٹ میں ذہن سازی کی۔اسلامک فنانس کے موضوع میں رہ کر ذہن سازی کی۔
- لوگ علم سے متاثر نہیں ہوتے۔لوگ رفاہی کاموں سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے اہل علم کو چاہیے کہ وہ رفاہی کاموں کی طرف توجہ دیں۔
(ڈاکٹر ذیشان )