جادو کے لیےعربی زبان میں ” سحر ” کا لفظ استعمال ہوا ہے ج سکی تعریف علماء نے یوں کی ہے :
الازھری کہتے ہیں : ” سحر دراصل کسی چیز کو اس کی حقیقت سے پھیردینے کا نام ہے ۔”
ابن فارس کہتے ہیں : ” ایک قوم کا خیال یہ ہے کہ “سحر ” باطل حق کی شکل میں پیش کرتا ہے “۔
جادو ، شریعت کی اصطلاح میں :
امام فخر الدین ا لرازی کہتے ہیں : ” جادو ہر اس کام کے ساتھ مخصوص ہے جس کا سبب محض ہو۔ا سے اس کی اصل حقیقت سے ہٹ کر پیش کیاجائے اور دھوکہ دہی اس میں نمایاں ہو۔”
جن ، شیطان اور جادو :۔
جن، شیطان اور جادو کے درمیان بہت گہرا تعلق ہوتا ہے ۔ بلکہ جادو کی بنیاد ہی جنات اورشیطان ہیں ، قرآن، جنات ، وشیاطین کے وجود پر دلائل پیش کرتا ہے۔کیونکہ بعض لوگ جنات وشیطان کے وجود پر دلائل پیش کرتاہے ۔کیونکہ بعض لوگ جنات کے وجود کا انکار کرتے ہیں ۔
قرآنی دلائل :۔
قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا ﴿١﴾
ترجمہ :کہہ دیجیے مجھے یہ وحی آئی ہے کہ جنات میں سے چند شخصوں نے ( اس کتاب کو ) سنا ، پھر کہنے لگے ہم نے ایک عجیب قرآن سناا ۔”
قرآن پاک کی بہت ساری آیات اس بارے میں موجود ہیں بلکہ جنات کے متعلق ایک مکمل سورت ” سورہ جن ” موجود ہے ۔
حدیث کے دلائل : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فرشتوں کو نور سے ‘ جنوں کو آگ کے شعلے سے ا ور آدم ؑ کو مٹی سےپیدا کیا گیا جو تمہارے لیے بیان کردی گئی ہے ۔
2۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ بنت حیی سے روایت ہت کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
” بے شک شیطان انسان میں خون کی طرح گردش کرتا ہے “۔
اس موضوع کی دیگراحادیث بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں ۔
جادو کے وجود پر قرآنی دلائل :
وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ۚ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۖ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚوَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ ۚ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۚ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿١٠٢﴾
اور انہوں نے ایسی چیز کا (یعنی سحر کا) اتباع کیا جس کا چرچا کیا کرتے تھے شیاطین (یعنی خبیث جن) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عہد سلطنت میں اور حضرت سلیمان (علیہ السلام نے) کفر نہیں کیا (ف ١) مگر (ہاں) شیاطین کفر کیا کرتے تھے اور حالت یہ تھی کہ آدمیوں کو بھی (اس) سحر کی تعلیم کیا کرتے تھے۔ اور اس (سحر) کا بھی جو کہ ان دونوں فرشتوں پر نازل کیا گیا تھا شہربابل میں جن کا نام ہاروت و ماروت تھا (ف ٢) اور وہ دونوں کسی کو نہ بتلاتے جب تک یہ (نہ) کہہ دیتے کہ ہمارا وجود بھی ایک امتحان ہے سو تو کہیں کافر مت بن جائیو (کہ اس میں پھنس جاوے) سو (بعضے) لوگ ان دونوں سے اس قسم کا سحر سیکھ لیتے تھے جس کے ذریعہ سے (عمل کر کے) کسی مرد اور اس کی بیوی میں تفریق پیدا کردیتے تھے اور یہ (ساحر) لوگ اس کے ذریعہ سے کسی کو بھی ضرر نہیں پہنچا سکتے مگر خدا ہی کے (تقدیری) حکم سے اور ایسی چیزیں سیکھ لیتے ہیں جو (خود) ان کو ضرر رساں ہیں اور ضرور یہ (یہودی) بھی اتناجانتے ہیں کہ جو شخص اس کو اختیار کرے ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ (باقی) نہیں اور بے شک بری ہے وہ چیز (یعنی سحرو کفر) جس میں وہ لوگ اپنی جان دے رہے ہیں کاش ان کو (اتنی) عقل ہوتی۔ (102)
حدیث نبوی ﷺ سے چند دلائل :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ قبیلہ بنو زریق سے تعلق رکھے والے ایک شخص نے ( جسے لبید بن الاعصم کہا جاتا تھا) رسول اکرم ﷺ پر جادو کردیا ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جادو آپ ﷺ کو اپنی بیویوں کے قریب جانےسے روکنے کے لیے کیاتھا، اس کا آپ ﷺپر یہی اثر تھا ،ا س کے علاوہ آپ ﷺ کی عقل اور باقی معاملات جادو کےا ثر سے محفوظ تھے ۔
آپ ﷺ پر کیاگیایہ جادو انتہائی شدید تھا اور اس سے یہودیوں کا مقصد آپ ﷺکو قتل کرنا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بچالیا اور دوفرشتوں کے ذریعے آپ ﷺکو آگاہ گیا۔
اعتراض اور اس کا جواب :
المازری ؒ کہتے ہیں : مبتدعین نے اسی حدیث کا انکار کیاہے کیونکہ ان کے خیال میں یہ حدیث منصب نبوت کی توہین ہے اس وک درست ماننے سے شریعت سے اعتماداٹھ جاتا ہے ۔
جواب : ابو الجکینی الیوسفی ؒ کا کہناہے :
” جہاں تک جادو سے بنی کریم ﷺ کے متاثر ہونے کا تعلق ہےتو اس سے منصب نبوت پر کوئی فرق نہیں آتا ۔ کیونکہ دنیا میں انبیاء علیہم السلام پر ہر بیماری آسکتی ہے ۔ لہذا جادو کی بیماری کی وجہ سے اگر آپ ﷺ کو خیال ہوتا تھا کہ آپ ﷺ نے دنیاوی امور سے کوئی کام کرلیاہے حالانکہ آپ ﷺ نے اسے نہیں کیاہوتا تھا، اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اطلاع دے دی کہ آپ ﷺ پر جادو کیاگیاہے تو آپ ﷺ نے اس کا سد باب کیا تو اسی سبب سے رسالت میں کوئی نقص نہیں آتا۔ کیونکہ اس سے آپ ﷺ کی عقل متاثر نہیں ہوئی تھی ۔
جادو کیاہے ؟
٭ مستدرک حاکم اور مسلم شریف میں پیغمبرا سلام کا فرمان ہے کہ :
” جو شخص کسی نجومی یا کاہن یعی غیب کی باتوں کا دعویدار اور فال نکالنے والے کے پاس گیا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں دریافت کیا اورا س کو سچاجانا تو اس نے شریعت اسلامیہ کا انکار کیا نیز اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہ ہوگی “
تخلیق کائنات سے ہی حق وباطل کی معرکہ آرائی چلی آرہی ہے ۔ابلیس ، آدم وبنی آدم کو بہکانے کی کوشش کرتے رہے ہیں چنانچہ آدم ؑ کے روئے زمین پر قدم رکھنے کے بعد حکم خداوندی ہوا۔
قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٣٨﴾
ترجمہ : ” تمہارےپاس میری طرف سے ہدایت آئے گی پس جو اس کی پیروی کرےگا نہ اسے کسی قسم کا خوف ہوگاا ور نہ ہی وہ غمگین ہوگا۔”
جب اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر وحی کے نزول کا نورانی سلسلہ شروع کیاتو شیاطین نے بھی انسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے انہیں ایسے ظلماتی کلمات سکھانا شروع کیے جو ان کے لیے شرک کی حیثیت رکھتے تھے اسی کا نام جادو ہے ۔
جادو ایک فن ہے جو بہت سے ممالک مثلا ً ہندوستان ، بنگلہ دیش وغیرہ کے بعض علاقوں میں مشہور اور فعال ہے یہ آج بھی سیکھا اور سیکھایاجارہاہے ۔ مراکش، تیونس،ا ور الجزائر بھی اہم مراکز ہیں ۔
آج ہمارا حال بھی یہ ہے کہ ہم قرآنی تعلیمات اور آیات کو چھوڑ کر تعویذ گنڈوں اور جادو ٹونے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ چنانچہ جب اہل کتاب پر اخلاقی اور مادی زوال کا دورآیا اور غلامی ، جہالت وافلاس نے ان کے حوصلوں کو پست کردای تو ان کی توجہ تعویذ گنڈوں کی طرف مبذول ہونے لگی ۔ اپنی کم علمی اور جہالت کی بنیاد پر اس باطل او ر حرام علم کو انہوں نے اللہ کے پاک اور سچے نبی حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کردیا۔” قرآن نے ا س کی نفی کی اور یوں فرمایا :
وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا ۔۔الخ
“سلیمان نے کفر نہیں کیا بلکہ شیطانوں نے کفر کیا۔”
قرآن مجید میں ایسےلوگوں کا ذکر ملتا ہے جو جادو کے ذریعے لوگوں کو ایسی باتیں سکھاتے ہیں جس سے شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال دیں ۔ چنانچہ آج ہمارا مشاہدہ ہے کہ جادوگروں ،نجومیوں ، فٹپاتھ پر بیٹھے بابا اور دم کرنے والوں کے پاس اکثر ان عورتوں کا ہجوم رہتا ہے جوساس بہو، نند بھاوج اور میاں بیوی کو زیر وزبر کرنے کے لیے تعویذ حاصل کرتی پھرتی ہیں ۔
جادو کے اثرات :۔
سورۃ البقرۃ کی آیت 102 میں فرمایاگیا :
” یاد رکھو ! وہ اللہ کے حکم کے بغیر کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے”۔
چنانچہ بحیثیت مسلمان ہمارا یمان ہونا چاہیے کہ اول وآخر جو کچھ بھی ہوتا ہے اللہ کے حکم سے ہوتا ہے ۔ بعض اوقات آزمائش مقصود ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کا دل ودماغ اور جسم ان اثرات کو قبول کرلیتا ہے۔ لیکن بعض اوقات بہت بڑے جادو کا اثر نہیں ہوتا لیکن اگر حکم الٰہی اور مصلحت خداوندی ہو جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا تو جادو کا اثر ہوجاتا ہے ۔ خواہ وہ شخص گناہ گار ہویا مفتی پرہیز گار ہو ۔
جادو کی اقسام :۔
امام ابو حنیفہ ؒ نے ارشادفرمایا :
” جادو حقیقت میں کچھ نہیں ہے بلکہ یہ احساس اور فریب نظر ہے ۔”
جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ جادو حقیقت میں اثر انداز ہوتا ہے اور جس شخص پہ کیاجائے وہ بیمار بھی پڑسکتا ہے ۔”
منتر پڑھ کر جادو کرنا :۔
یہ منتر جو شرکیہ اور مجہول ( یعنی سمجھ میں نہ آنے والے کلمات ہوتے ہیں ۔اور کوئی شخص یہ جادو اس وقت تک کرنہیں سکتا جب تک اسلام سے نکل نہ جائے اور کفر اختیار کرلے ۔کیونکہ یہ انتہائی خبیث ، فاسق، گندے اور غلیظ کام کرنے کی طرف راغب کرتے ہیں ۔
مخصوص چیزوںسے جادو کرانا:
جیسے انسانی بالوں ، ناخنوں اور لباس وغیرہ کے ساتھ دوسری چیزیں شامل کرکےعمل کیاجاتا ہے جسے ٹونہ ٹوٹکا کہا جاتا ہے یہ بھی جادو میں شامل ہے ۔
چیزوں کی ہئیت تبدیل ہوجائے :۔
بعض علماء جیسے امام راغب ؒ اصفہانی ،ا بوبکر جصاص ؒ وغیرہ نے اس سے انکار کیاہے کہ جادو سے چیز کی حقیقت بدل جائے ۔
مگر اکثرعلماء کا کہناہے کہ جادو سے چیزوں کی حقیقت تبدیل کی جاسکتی ہے ۔
شیاطین کی مدد لینا:۔ یہ شیاطین جن جنھیں جادو کرنے والے اپنے ” موکل ” کو کہتے ہیں ان سے مدد لی جاتی ہے تاکہ لوگوں کے حالات کی خبریں ان تک پہنچائیں ۔ا ور پھر پہلے لوگوں کو ان کی پریشانی کا سبب بتاکر لوگوں کو دھوکہ دیں ۔
ستاروں سے مدد لینا :۔
جادو کی اس قسم میں جادوگر ستاروں کی مدد سے زائچہ بناتا ہے ۔ پھر لوگوں کو ان کی قسمت کا حال بتانے کا دھوکہ دیاجاتاہے ۔
جادو کے احکام شریعت کے اعتبار سے :۔
حدیث کی مشہور کتاب ” صحیح مسلم ” میں حضرت عوف بن مالک سے روایت ہے کہ ہم زمانہ جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے ۔ ہم نے اس کے متعلق آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ کیا حکم ہے ؟ فرماای ۔ ” دم کے الفاظ میں اگر شرک کی ملاوٹ نہ ہوتو کوئی حرج نہیں۔ا حادیث میں تعویذ گنڈے لٹکانے اوردھاگے باندھنے کی تو ممانعت آئی ہے لیکن اگر شرکیہ الفاظ نہ ہوں تو دم کرانا جائز ہے ۔
آنحضرت ﷺ نے خود معوذتین سے اپنے جسم پر دم کیا ۔
علماء امت کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ دم جس میں مندرجہ ذیل تین شرائط پائی جائیں جائز ہے ۔
وہ دم جو کلام اللہ اسماء اللہ ا س کی صفات پر مبنی ہو۔
وہ دم جو عربی زبان میں ہو اس کے معنیٰ بھی واضح اور مشہور ہوں اور شریعت اسلامی کے مطابق ہو ۔
دم کرنے والا یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ سارا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
جادو کے احکامات کے حوالے سے علماء میں اختلاف پائے جاتے ہیں ۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ جادو کی ہر قسم کفر ہے لہذا جائز نہیں ۔ احکام کے لحاظ سے کئی اقسام کے ہیں ایک وہ جو جائز نہیں ۔ جیسے :
جن میں شیطان سے مدد لینا،
ستاروں سے مددلینا ،
شرکیہ کلمات ادا کرنا،
شرکیہ طریقہ اختیار کرنا ( جیسے فون کے ذریعے سے مقدس کلمات لکھوانا )
ایسا کوئی بھی فعل یا عمل جس میں کفر لازم آئے وہ جائز نہیں ۔
دوسری وہ جس میں نہ شیطان سے مدد لیں نہ ستاروں سے مدد لیں بلکہ احکامات شریعت کو چھوڑڈینے کے لیے کہا جائے جیسے :
نماز نہ پڑھو، قرآن نہ پڑھو، زکوٰۃ نہ دو، پاک صاف نہ رہو،
یہ گناہ کے زمرے میں آئے گا اور یہ کفر ہے ۔ ایسا کرنے والاسخت گناہ کا مرتکب ہوگا ۔
تیسری وہ قسم ہے جس میں نہ شرکیہ کلمات ادا کرے نہ گناہ کا کام کرے بلکہ اس کا مقصد لوگوں کی بھلائی ہو جیسے جادو کا توڑ کیاجائے ۔ وغیرہ
جادو اور معجزہ میں فرق :۔
- معجزے نیک لوگوں کے ہاتھوں ہوتے ہیں ۔ جوپاک صاف رہتے ہیں ا ور اچھائی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ۔ جبکہ جادو کرنے والے ظاہری طور پر گندے ، بھیانک اور کراہت ولاے کام کرتے نظر آئیں گے۔
- جادو کے لیے لازماً کچھ چیزیں درکار ہوتی ہیں یا شرکیہ کلمات ہوتے ہیں ۔
جبکہ معجزے کے پیچھے کوئی خفیہ اسباب نہیں ہوتے بلکہ براہ راست اللہ کی طرف سے ہوتا ہے ۔
جیسے : چاندکا دو ٹکڑے ہوجانا، آپ ﷺ کا مٹی کو کافروں کی طرف پھینکنا اورا س مٹی کا سارے مجمع کی آنکھوں تک پہنچ جانا ۔
یہ براہ راست اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے ۔
- جادو ایک فن ہے جو سیکھا جاسکتا ہے ۔
جبکہ معجزہ فن نہیں ۔
معجزہ اور کرامت :۔ معجزہ انبیاء کرام کےہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے ۔ جبکہ کرامت اولیاء وولی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتی ہے ۔
امام المازری ؒ اس فرق کی وضاحت یوں کرتے ہیں :
” جادو کرنے کے لیے جادوگر کو چندا قوال وافعال سر انجام دینا پڑتے ہیں ، جبکہ کرامت میں اس کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ اتفاقاً واقع ہوجاتی ہے اوررہا معجزہ تو اس میں باقاعدہ چیلنج ہوتا ہے جو کہ کرامت میں نہیں ہوتا “۔
تنبیہ :۔ اگر واقعی اشیاء کی حقیقت بدلنے لگتی ۔جادوگر وں کے منتر پڑھنے سے مٹی سونا بننے لگتی، چٹیل زمین پر محلات کھڑے ہوجاتے تو دنیا میں جادوگروں کی بادشاہت ہوتی ، جادوگر جو چاہتےوہ کرتے ۔ وہ لوگوں کی قسمت کے فیصلے کرتے جبکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ تعویذ کرنے والے نجومی اور جادوگر معاشرے کے پسماندہ ترین لوگ ہوتے ہیں ۔ جبھی تو فٹ پاتھوں پر بیٹھے ، طوطے اوردوسری چیزوں سے لوگوں کی قسمتکے حال بتاتے نظر آتے ہیں ۔ حالانکہ خود ہی اپنی قسمت کا حال بھی نہیں جانتے ۔اگر یہ دوسروں کی قسمت کے فیصلے کرنے والے ہوتے تو سارا خیر اپنےلیے نہ سمیٹ لیتے ۔
تحریر: اسماء اہلیہ فاروق