دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:110
الجواب حامدا و مصلیا
الف: مسجد کے اندر اگر اتصال صفوف نہ بھی ہو تو بھی نماز ہو جاتی ہے،اگر چہ درمیان میں فصل چھوڑ کر نماز پڑھنا مکروہ ہےاور سائبان چونکہ فناءمسجد میں داخل ہے اور فناء مسجد میں بھی بلا اتصال اقتدار درست ہو جاتی ہے،اس لیے اس صورت میں نماز کراھت کے ساتھ ہوگئی ہے۔
ب: اس صورت میں مطعم اور مکتب پر کھڑے لوگوں کی اقتداء درست نہیں ،اسی طرح تالابوں کے درمیان اور ان کی چھت پر کھڑے ہونے والے اور اقامت گاہ یا اس کی چھت پر کھڑے ہونے والے نمازیوں کی اقتداء درست نہیں کیونکہ ان کے اور مسجد کے درمیان راستہ حائل ہے جس میں اتصال صفوف نہیں ہے۔
د: فناء مسجد سے مراد وہ جگہ ہے جو مسجد سے متصل ہو اور اس کے اور مسجد کے درمیان راستہ نہ ہو اور اس کی کوئی تحدید فقھاء کرام نے ذکر نہیں کی،البتہ اس کا مدار عرف پر ہے ،عرف میں مسجد سے متصل قریب قریب جو جگہ ہوگی وہ فناء کہلائے گی،
مسجد کا سائبان فناء مسجد میں داخل ہےاس کے علاوہ جتنی عمارات ہیں وہ فناء مسجد سے خارج ہیں کیونکہ ان عمارات اور مسجد کے درمیان راستہ ہے اور راستے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ عام گزرگاہ ہوبلکہ ہر وہ کھلی جگہ جہاں سے لوگ گزرتے ہوں اور وہ مسجد سے خارج ہو وہ راستہ ہے۔
ھ: شارع عام سے مراد مسجد سے خارج ایسا راستہ جہاں سے ایک بیل گاڑے گزر سکے۔بالفعل گزرنا شرط نہیں بلکہ امکان کافی ہے۔
و: بلااتصال صفوف اقامت گاہ میں امام کی اقتداء میں نماز نہیں ہو سکتی۔
ز: نماز درست نہیں ہو گی اور عذر کی وجہ سے بلا اتصال صفوف مسجد کی فناءسے باہر نماز درست نہیں ۔
ح: سخت گرمی اور تیز بارش کو ترک جماعت کے اعذار میں داخل ہے اگر ان اعذار کی بناء پر مسجد نہ جا سکیں تو اپنی جگہ ہی جمارت کی جاسکتی ہے لیکن اس کی وجہ سے بلا اتصالصفوف مسجد کے امام کی اقتداء درست نہیں ۔کثیر مجمع کا عذر ہونا سمجھ میں نہیں آیا۔
ط: صورت مسؤلہ میں مذھب غیر پر عمل جائز نہیں کیونکہ مذھب غیر پر عمل یا فتاوی اس وقت جائز ہوتا ہے جب مجبوری شدید ہو اور اپنے مذھب میں حل نہ نکل سکتا ہو،یہاں دونوں باتیں مفقود ہیں۔
ی: اگر نمازی خشوع خضوع کے ساتھ سنت طریقے کے مطابق نماز پڑھ رہا ہو تو جہاں تک اس کی نگاہ جاتی ہے وہاں تک گزرنا جائز نہیں ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق سنت طریقے کے مطابق نماز پڑھنے سے نگاہ دو صفوں تک جاتی ہے لہذا مسجد کبیر میں دو صفوں کو چھوڑ کر اس سے آگے گزرنے کی گنجائش ہے،مسجد صغیر میں آگے سے گزرنا مطلقا جائز نہیں ۔
فی الشامیۃ:و ذکر فی البحر عن المجتبی ان فناء المسجد لہ حکم المسجد،ثم قال:و بہ علم ان الاقتداء من صحن الخانقاہ الشیخونیۃ بالامام فی المحراب صحیح و ان لم تتصل الصفوف،لان الصحن فناء المسجد و کذا اقتداء من بالخلاوی السفلیۃ صحیح لان ابوابھا فی فناء المسجد الخ و یاتی تمام عبارتہ و فی الخزائن فناء المسجد ھو ما متصل بہ لیس بینہ و بینہ طریق اھ۔
قلت:یظھر من ھذا ان مدرسۃ الکلاسۃ و الکاملیۃ من فناء المسجد الموی فی دمشق لان بابھما فی حائطہ و کذا المشاھد الثلا ثۃ التی فیہ بالاولی و کذا ساحۃ باب البرید و الحوانیت التی فیھا۔(ج 1 ص585)
فی البحر:کذا اقتداء من بالخلاوی السفلیۃ صحیح لان ابوابھا فی فناء المسجد و لم یشتبہ حال الامام و اما اقتداء من بالخلاوی العلویۃ بامام المسجد فغیر صحیح حتی الخلوتین اللتین فوق الایوان الصغیر و ان کان مسجدا لان ابوابھا خارجۃ عن فناء المسجد سواء اشتبہ حال الامام او لا کالمقتدی من سطح دارہ المتصلۃ بالمسجد فانہ لا یصح مطلقا و عللہ فی المحیط باختلاف المکان۔
(ج 1 ص 363)
فی منحلۃ الخالق(قولہ و ام اقتداء من بالخلاوی العلویۃ)قال فی الشرنبلالیۃ تفریع علی غیر الصحیح و الصحیح صحۃ اقتداء لما ذکرناہ و لما قالہ فی البرھان لو کان بینھما حائط کبیر لا یمکن الوصول منہ الی الام و لکن لا یشتبہ حالہ علیہ بسماع او رؤیۃ لانتقالاتہ لا یمنع صحۃ الاقتداء فی الصحیح و ھو اختیار شمس الائمۃ الحلوانی اھ و علی الصحیح یصح الاقتداء بامام مسجد الحرام فی المحال المتصلۃ بہ و ان کانت ابوابھا من خارج المسجد۔
فی الخلاصۃ:قوم یصلون فی الصحراء خارج المسجد و فی الصحراء وسط الصفوف فرجۃ لم یقم فیھا احد مقدار فارقین او حوض ان کانت الصفوف متصلۃ حوالی ذلک الموضع یجوز صلاۃ من کان وراء ذلک الموضع و ھذا اذا کان الحوض کبیرا بحیث لو
وقعت فی جانب نجاسۃ لا یتنجس الجانب الآخر اما اذا کان صغیر الایمنع الاقتداء(ج 1 ص 152)و اللہ اعلم بالصواب۔
(سید حسین احمد )
دارالافتاء دارالعلوم کراچی 14
1-7-1428ھ
پی ڈی ایف میں فتویٰ حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :
https://www.facebook.com/groups/497276240641626/547474335621816/