اسقبال رمضان کا حکم
حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ جب رجب کا چاند دیکھتے تو اس کے بعد دعا فرماتےاور یہ دعا کئی روایات میں آئی ہے۔اَللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِيْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ یعنی یا اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرمااور رمضان تک ہمیں پہنچا دے۔
تو رمضان سے پہلے ہی رمضان کی دعائیں کی جا رہی ہیں ۔تویہ استقبال رمضان ہی ہے۔
صحیح ابن خزیمہ اورمتعددکتب حدیث میں ایک روایت آتی ہے،شیخ الحدیث مولانازکریارحمہ اللہ نے “فضائل اعمال” میں بھی اس سےملتی جلتی روایت لکھی ہے۔ حضرت سعید ابن مسیب اس کے راوی ہیں۔اور وہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ہمیں شعبان کے آخری دن ایک خطاب فرمایااورارشادفرمایا:
صحيح ابن خزيمة ط 3 (2/ 911)
عَنْ سَلْمَانَ قَالَ:خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ، فَقَالَ: “أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيمٌ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، شَهْرٌ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، جَعَلَ اللَّهُ صِيَامَهُ فَرِيضَةً، وَقِيَامَ لَيْلِهِ تَطَوُّعًا، مَنْ تَقَرَّبَ فِيهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ، كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ، وَمَنْ أَدَّى فِيهِ فَرِيضَةً، كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ، وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ، وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ، وَشَهْرٌ يَزْدَادُ فِيهِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ، مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ، وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ”. قَالُوا: لَيْسَ كُلُّنَا نَجِدُ مَا يُفَطِّرُ الصَّائِمَ. فَقَالَ: “يُعْطِي اللَّهُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى تَمْرَةٍ، أَوْ شَرْبَةِ مَاءٍ، أَوْ مَذْقَةِ لَبَنٍ، وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ، وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ، وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ، مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ، وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ، وَاسْتَكْثِرُوا فِيهِ مِنْ أَرْبَعِ خِصَالٍ: خَصْلَتَيْنِ تُرْضُونَ بِهِمَا رَبَّكُمْ، وَخَصْلَتَيْنِ لَا غِنًى بِكُمْ عَنْهُمَا، فَأَمَّا الْخَصْلَتَانِ اللَّتَانِ تُرْضُونَ بِهِمَا رَبَّكُمْ، فَشَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَتَسْتَغْفِرُونَهُ، وَأَمَّا اللَّتَانِ لَا غِنًى بِكُمْ عَنْهُمَا، فَتَسْأَلُونَ اللَّهَ الْجَنَّةَ، وَتَعُوذُونَ بِهِ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ أَشْبَعَ فِيهِ صَائِمًا، سَقَاهُ اللَّهُ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ”.
ترجمہ: حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہﷺنے ہم کو ایک خطبہ دیا …. اس میں آپﷺ نے فرمایا : اے لوگو ! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ افگن ہو رہا ہے ، اس مبارک مہینہ کی ایک رات ( شب قدر ) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
فرمایا: اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہ خداوندی میں کھڑا ہونے ( یعنی نماز تراویح پڑھنے ) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے ( جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے ) جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت ( یعنی سنت یا نفل ) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا ۔ اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستر فرضوں کے برابر ہے ۔
اورفرمایا: یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ۔ یہ غریبوں سےہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے ۔ اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔
اور فرمایا: جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو ( اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے ) روزہ افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور جہنم کی آگ سے آزادی کا ذریعہ ہو گا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا اورخود روزہ دار کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں کی جائے گی….اس پر آپ ﷺ سے صحابہ کرام نےعرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا ( تو کیا غربا اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جوایک کھجورسےکسی کوروزہ افطارکرادےیا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پریا دودھ کی تھوڑی سی لسی پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے ۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے ۔ درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی ہے۔
( اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا ) اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام اورنوکر کے کام میں تخفیف اور کمی کر دے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے دے گا ۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: اس ماہ مبارک میں چارکام کثرت سےکرو جن میں سے دوتووہ ہیں جن سےتم اپنےرب کوراضی کرسکتےہواوردووہ ہیں جوتمہیں کرنے ہی کرنے ہیں،اس کےبغیرکوئی چارۂ کارنہیں۔پہلےدوکام جن سے تم اللہ تعالی کوخوش کرسکتےہو،ان میں سے ایک کلمہ لاالہ الااللہ کی کثرت ہے اور دوسری چیزاستغفار کی کثرت ہے۔ اوروہ دوکام جوتمہیں کرنے ہی کرنے ہیں،جسکےبغیرکوئی چارۂ کارنہیں۔ایک ہےجنت کاسوال اوردوسراہے جہنم کی آگ سے خلاصی کی دعا۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ماہ مبارک میں جوکسی روزےدارکوپیٹ بھرکرکھاناکھلادے گا اللہ تعالی اس کومیرے حوض سے ایساجام پلائے گاجس کی وجہ سے اس کی پیاس مٹ جائے گی اور جنت میں داخل ہونے تک اسےکوئی پیاس محسوس نہ ہوگی۔( صحیح ابن خزیمہ )
معلوم ہوا کہ رمضان آنے سے پہلے اس کے استقبال میں اس کے مسائل ،فضائل وغیرہ بیان کرنا مبارک اورنیک عمل ہےاورخود آپ ﷺ سےایساکرنا ثابت ہے ۔