”تیسرا سبق“
یورپ کی حالت
یورپ بھی جاہلیت کے کاموں میں کسی سے پیچھے نہیں ہے1-یہاں زوال روما کے بعد”پاپائیت” برسر اقتدار آگئ ہے- “پوپ” مذہبی علم کے علاؤہ تمام اصناف کا دشمن ہے-جہاں کوئ”عالم٫فلسفی٫یا مفکر سر اٹھاتا اسے کچل دیا جاتا ہے-لاکھوں کی تعداد میں کتابیں نذر آتش ہوئیں-“عیسائی فرقہء نسطوری( نسطورا راہب)
کو کافر قرار دےدیا گیا ہے- اب یہاں”شدت پسندی٫جہالت٫اور ناخواندگی”کا راج یے-
2-کاغذ نایاب ہے اسکی جگہ چرمی جھلی استعمال کی جاتی ہے٫جسکی قیمت بہت زیادہ ہے- یہ راہب جھلی پر لکھی ہوئ کتابیں کھرچ کر ان پر”مسیحی اولیاء” کی داستانیں لکھ ڈالتے ہیں-“پاپائے اعظم گریگوری”(540 سے 604ء)سائنس٫تاریخ٫شعروادب٫اور دیگر علوم و فنون کا سخت دشمن گزرا ہے-وہ دینیات اور دعاؤں کے علاؤہ”علوم”کی کسی صنف کو برداشت نہیں کر سکتا ہے-اسنے “رومی سائنس دانوں٫ خطیب٫اور مؤرخ لثیوی(17ق م) کی سب کتابیں تلف کر ڈالیں- ایک مرتبہ اسے خبر پہنچی کہ ویانا ( آسٹریا کا دارالحکومت) کے لاٹ پادری نے کسی ادبی موضوع پر کوئ مقالہ پڑھا ہے٫تو اسے لکھا کہ “ہمیں خبر ملی ہے ٫کہ جسکے ذکر سے ہمیں شرم آتی ہے٫کہ تم نے کوئ ادبی مقالہ پڑھا ہے”مجھے امید ہے کے اب تمہیں ان لغویات سے کوئ سروکار نہیں-
3-یونان کی ایک لڑکی” “پشپا” نے”اسکندریہ سے فلسفے کا علم حاصل کیا اور ممتاز فلسفی بن گئی-
اسکندریہ” کے پشپ “سائرل” نے اسے کافرہ قرار دے دیا- ایک روز جب وہ لڑکی اپنے فرائض تدریسی” سر انجام دے کر اپنی درسگاہ کی طرف جا رہی تھی تو” سائرل” کے بھیجے ہوئے سنگدل راہبوں نے اسے پکڑ لیا اور اسے ننگا کر کے بازار میں گھسیٹا اور پھر گرجا لیجا کر تیز دھار آلے سے پہلے اسکی کھال کھرچی٫ پتھر سے اسکا سر توڑا٫لاش کے ٹکڑے کئے اور انہیں آگ میں پھینک ڈالا-(العیاذ باللہ)
4- یہاں جا بجا غلیظ دلدل اور جوہڑ ہیں-لندن اور پیرس جیسے شہروں میں لکڑی کے ایسے مکانات ہیں جنکی چھتیں گھاس کی ہیں-چمنی٫ روشن دان اور کھڑکیاں غائب ہیں-ان لوگوں کے جسم گندے اور ذہن خرافات سے بھرے ہوئے ہیں- صفائ ستھرائی کی طرف کوئ توجہ نہیں ہے-
پانی کا استعمال کم سے کم کرتے ہیں-عوام ایک ہی لباس سالہاسال تک پہنتے ہیں٫دھوتے بالکل نہیں ہیں-نتیجتاً وہ” چرکین” میلا اور بدبو دار ہوجاتا- روز نہانا بھی کفر سمجھا جاتا ہے-
4-انکے یہاں ابھی تک یہ طے نہیں ہوا کہ “عورت” انسان بھی ہے یا حیوان ہے؟اسکے اندر غیر فانی روح ہے یا نہیں-اسکی خرید وفروخت جائز اور دوسرے حقوق ہیں یا نہیں؟
5-انکے یہاں عدم برداشت کا ماحول ہے-حق گوئی جرم ہے-آزادانہ اظہار خیال پر پہرے بٹھادئے گئے ہیں-
6-سائنس اور سیاست موت کی نیند سو چکے ہیں-نہ علم ہے نہ منظم حکومت-“بس خانہ جنگیاں٫افراتفری٫ اور طوائف الملوکی ہے-
“عربوں کی حالت”
1- حضرت اسماعیل علیہ السلام” تک عرب توحید اور ملت ابراہیم” پر ثابت قدم رہے٫اس کے بعد آہستہ آہستہ” ملت ابراہیم” کا رنگ مٹتا گیا لیکن بالعموم توحید پرستی باقی ہے-
پھر”بنی خزاعہ” کا سردار “عمرو بن لحمی” جسے اپنی دینی دلچسپی کی وجہ سے ایک تقدس حاصل تھا٫شام کے سفر میں اسنے “اہل عراق”اور شام” کو بتوں کو پوجتے دیکھا تو اپنے ساتھ” ہبل” نامی ایک بت لے آیا اور “خانہء کعبہ”میں نصب کر کے”اہل مکہ” کو شرک کی دعوت دی- اہل مکہ کو مذہبی لیڈر شپ حاصل تھی لہذا”اہل حجاز” نے جلد ہی ان بتوں کو قبول کر لیا -بت پرستی کا پھیلاؤ اسی”عمرو بن لحمی”کی کوششوں سے ہوا اور عرب کے تین بتوں” لات٫مناہ٫اور”عزی” کو” طائف”کی وادی میں “قدید”اورنخلہ” میں نصب کیا گیا- قوم نوح کے بتوں”ود٫سواع٫یغوث٫یعوق٫اورنسر”کو بھی اس نے کسی طرح جدہ کی پہاڑیوں سے ڈھونڈ نکالا اور حج کے موقع پر مختلف قبائل میں تقسیم کر دیا- اس طرح پہلے ہر ہر قبیلے میں اور پھر ہر ہر گھر کا ایک بت ہوگیا- اور اب صورتحال یہ ہے کہ ہر گھر بت خانہ بن گیا ہے- مشرکین نے” مسجد حرام” کو بھی بتوں سے بھر دیا ہے اب منبع توحید”بیت اللہ” میں”360″ بت رکھ دئے گئے ہیں-(العیاذ باللہ)
2-عربوں نے بتوں سے متعلق مختلف خود ساختہ عبادتیں اور رسمیں بنا رکھی ہیں-
بتوں کے آستانے پر جا کر انکو حاجت روا٫ مشکل کشاءاور سفارشی سمجھ کر پکارتے ہیں-بتوں کے نام پر جانور٫ کھیتی٫ یا مال کا کچھ حصہ مقرر کرتے اور جانور ذبح کرتے ہیں- مختلف قسم کے جانوروں کو بتوں کے نام پر چھوڑ کر انہیں متبرک اور مقدس سمجھتے ہیں-
جنات کو اللہ کے بیٹے ( نعوذباللہ)اور فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ( نعوذباللہ من ذالک) کہتے ہیں-
3-انہوں نے حلال و حرام کے خود ساختہ اصول بنا رکھے ہیں٫ مختلف طریقوں سے فال نکالتے ہیں-بدشگونی لیتے ہیں- نجومی اور کاہنوں کی باتوں پر یقین کرتے ہیں- نحوست کا عقیدہ رکھتے ہیں-
4-“نکاح “کے شرمناک طریقے رائج ہیں جنہیں زنا کے علاؤہ کچھ نہیں کہا جا سکتا- زنا عام ہے اور ہر قبیلے میں رائج ہے٫ اور زنا کی اولاد کی نسبت اپنی طرف سر عام کی جاتی ہے-(العیاذ باللہ)
5-مالی تنگی کی وجہ سے کچھ لوگ اور عام طور پر شرمندگی کی وجہ سے کچھ لوگ فخریہ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے ہیں-لیکن یہ تمام قبائل میں عام نہیں ہے- لڑکیوں کو میراث میں حصہ نہیں دیا جاتا ہے-
6- قبائل متحد نہیں ہیں-آپس میں ہمیشہ دست وگریباں رہتے ہیں- معمولی معمولی باتوں پر دشمنیاں صدیوں چلتی ہیں-حرمت والے مہینوں “ذیقعدہ٫ذی الحج٫محرم اور رجب” کے علاؤہ ہر وقت٫ہر جگہ لوٹ مار اور قتل و غارتگری کا بازار گرم رہتا ہے٫بلکہ حرمت والے مہینوں کو بھی اپنی مرضی سے آگے پیچھے کر دیا جاتا ہے-
٫ایک مسیحا کی ضرورت”
“چھٹی صدی عیسوی”کے عالمی حالات اپنے ملاحظہ کئے-مختصرا کہا جا سکتا ہے کہ”چھٹی صدی عیسوی”تاریخ کا بدترین دور ہے- ایک ایسا دور جس میں انسانیت کا مستقبل تاریک اور انتہائ درجہ مایوس کن نظر آتا ہے- ایسے حالات میں سخت ضرورت محسوس ہوئی کہ کوئ “مسیحا” دنیا میں آئے –
1- جو لوگوں کو کفر و شرک اور گناہوں کی اس دلدل سے نکالے-2- جو دنیا میں ایسا نظام نافذ کرے جو سابقہ تمام نظاموں سے بہتر ہو-3-جو لوگوں کو انکے حقوق دلائے- 4- جو انسانیت کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلائے-5- انسانوں کو ان کی منزل دکھائے-
6-برائیوں کے مقابلے میں نیکی اور انسانی ہمدردی کو غالب کردے- 7-تحریفات کا پردہ چاک کر کے اسلام اور آسمانی مذاہب کا رخ دنیا کے سامنے کردے-اور ایسا قانون فراہم کردے جو رہتی دنیا تک انسانیت کی مشکلات کو حل کرتا رہے-
اور پھر ایسا ہی ہوا”اللّٰہ رب العزت “کو دنیا والوں کی حالتِ زار پر ترس آیا٫ اس نے اپنے” محبوب٫ “خاتم الانبیاء “حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو مسیحا بنا کر دنیا میں بھیجنے کا فیصلہ کیا- اس مسیحا نے “23”سال کے مختصر عرصے میں ایک ایسا عظیم انقلاب برپا کیا کہ دنیا آج بھی حیرت میں ہے-
“وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے”
“غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا”
“صلی اللّٰہ علی محمد” “صلی اللّٰہ علیہ وسلم”
(جاری ہے)
حوالہ: سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کورس-
مرسلہ:خولہ بنت سلیمان-
“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف آمین-