اسلام میں مونچھوں کے بارے کیا حکم ہے؟ نیز کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی مونچھیں بڑی تھیں؟

سوال:اسلام میں مونچھوں کے بارے کیا حکم ہے؟ نیز کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی مونچھیں بڑی تھیں؟
الجواب باسم ملهم الصواب
نبی کریم ﷺ کا معمول مونچھیں خوب کترنے کا تھا، اس لیے مونچھیں اچھی طرح کتروانا سنت ہے، یعنی قینچی وغیرہ سے کاٹ کر اس حد تک چھوٹی کردی جائیں کہ مونڈنے کے قریب معلوم ہوں، باقی استرہ اور بلیڈ سےمنڈانا بھی جائز ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ قینچی کا استعمال کیاجائے۔
مونچھ کا اس حد تک بڑھ جانا یا اتنی بڑھا کر رکھنا کہ وہ اوپر کے ہونٹ کی لکیر سے تجاوز کرجائے کہ کھانے پینے کی اشیاء میں لگ رہی ہو شرعاً درست نہیں۔
البتہ ہونٹ کے دونوں کناروں کی جانب کے بال کے چھوڑنے کی گنجائش ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس طرح چھوڑنا ثابت ہے۔ لیکن بعض حضرات کے نزدیک اب اعاجم اور اہل کتاب سے مشابہت کی وجہ سے نہ چھوڑنا اولیٰ وبہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔الفِطْرَةُ خَمْسٌ: الخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الآبَاطِ. ” (رواه البخاري ومسلم)
ترجمہ: پانچ چیزیں انسان کی فطرتِ سلیمہ کے تقاضے اور دینِ فطرت کے خاص احکام ہیں: ختنہ، زیر ناف بالوں کی صفائی، مونچھیں تراشنا، ناخن لینا اور بغل کے بال لینا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
2۔ عن زيد بن أرقم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من لم يأخذ شاربه فليس منا. رواه أحمد والترمذي والنسائي.(مشکاة المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني، ص:381 )
ترجمہ: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو شخص مونچھیں نہیں تراشتا وہ ہم میں سے نہیں”۔
3۔”عَنْ أَنَسٍ قَالَ: «وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّوَارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الْإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً»”. (رواه مسلم)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن لینے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے واسطے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ۴۰روز سے زیادہ نہ چھوڑیں۔ (صحیح مسلم)
4۔ واختلف في المسنون في الشارب هل هو القص أو الحلق؟ والمذهب عند بعض المتأخرين من مشايخنا أنه القص. قال في البدائع: وهو الصحيح. وقال الطحاوي: القص حسن والحلق أحسن، وهو قول علمائنا الثلاثة نهر. قال في الفتح: وتفسير القص أن ينقص حتى ينتقص عن الإطار، وهو بكسر الهمزة: ملتقى الجلدة واللحم من الشفة، وكلام صاحب الهداية على أن يحاذيه.
اهـ. وأما طرفا الشارب وهما السبالان، فقيل هما منه، وقيل من اللحية، وعليه فقيل لا بأس بتركهما، وقيل يكره لما فيه من التشبه بالأعاجم وأهل الكتاب، وهذا أولى بالصواب. (ص550 – كتاب حاشية ابن عابدين رد المحتار ط الحلبي – باب الجنايات في الحج)
5۔فتح الباری میں ہے:
“وقال القرطبي: وقص الشارب أن يأخذ ما طال على الشفة بحيث لا يؤذي الآكل ولا يجتمع فيه الوسخ”. (10 /347)
6۔كان عمر رجلا طويلا جسيما أصلع شديد الصلع أبيض شديد الحمرة في عارضيه خفة، سبلته كبيرة، وفي أطرافها صهبة. (ص105 – كتاب تاريخ الخلفاء – الخليفة الثاني عمر بن الخطاب رضي الله عنه)
7۔’’اوپر کے ہونٹ پر دونوں کناروں تک جہاں سے نچلے جبڑے کی حد شروع ہوتی ہے، یہی مونچھوں کی حد ہے‘‘۔ (فتاوی محمودیہ 19/ 425)
والله تعالى أعلم بالصواب
3 رجب 1444ھ
26 جنوری 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں