انشورنس اور تکافل میں فرق

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! السلام علیکم و رحمة الله وبركا ته!کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ(1) مجھے انشورنس کے بارے میں تفصیل چاہیے جس میں سود ہوتا ہے اور تکافل کے بارے میں بھی کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے۔ یہ کیسے جائز ہے؟ اور (2) گاڑیوں کی یا (3) ہسپتال کی انشورنس جو سعودیہ میں بھی ہوتی ہے، پاکستان میں بھی، یہ کیسے جائز ہے؟اور یہ ناجائز کن شعبوں کے ساتھ ہوتی ہے؟ مکمل تفصیل بتا دیں۔ 

والسلام

سائلہ کا نام: أمة اللة

پتا: ا۔ب۔ج۔

الجواب حامدا و مصليا

وعلیکم السلام و رحمة الله!

(1)انشورنس ایک کاروباری معاملہ ہے جس میں معاوضہ مقصود ہوتا ہے لہذا شریعت نے اس میں غرر (غیر یقینی صورتحال یا جہالت) قمار (جوئے کی صورتیں) اور سود (اضافی یا کم ادائیگی) پائے جانے کی وجہ سے اسے ناجائز قرار دیاہے۔ انشورنس سود اور جوئے پر مشتمل ہونے کی بنا پر ناجائز اور حرام ہے۔ تکافل میں سود اور قمار کی صورت نہیں پائی جاتی بلکہ یہ ایک وقف فنڈ کا نام ہے۔ جس سے مخصوص شرائط کے ساتھ وقف فنڈ کے شرکاء ایک دوسرے پیش آنے والے خطرات کا ازالہ غیر کاروباری بنیادوں پر کرتے ہیں۔ تکافل کی غیر کاروباری حیثیت کی وجہ سے اس میں جہالت اور زیادہ ادائیگی سود کے حکم میں نہیں۔ ممبران کا سرمایہ جمع کرکے اسے کاروبار میں لگایا جاتا ہے اور اس کے نفع کی ایک متعینہ مقدار امدادی فنڈ کے نام سے کردی جاتی ہے، پھر شرائط کے مطابق اسی فنڈ سے حادثات وغیرہ کے پیش آنے کی صورت میں حادثہ کے شکار شخص کی مدد کی جاتی ہے، شرعاً یہ جائز ہے اور اسی لیے کہا جاتا ہے اس کی بنیاد وقف اور تبرع ہوتا ہے۔ (مزید تحقیق کے لیے ڈاکٹر مفتی عصمت اللہ صاحب کی کتاب ’’تکافل کی شرعی حیثیت‘‘ کا مطالعہ کریں)

(2) کار انشورنس بھی جوئے کی ایک صورت  ہے اور اپنے اختیار سے کار انشورنس کراناشرعاً جائز نہیں، لیکن جبری اور قانونی طور پر اگر کار کی انشورنس کرانا لازمی ہو تو (دل سے ناجائز سمجھتے ہوئے انشورنس کرانے والے مجبور شخص کو)  اس کا گناہ نہیں ہوگا،  البتہ ایکسیڈنٹ کی صورت میں صرف اپنی جمع کی ہوئی رقم کے بقدر ہی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ 

(3) ہسپتال کے انشورنس کی تفصیل یہ ہے:

اپنے ملازمین کے علاج کے لیے  کسی کمپنی کے انشورنس کمپنی سے معاملہ کی عموماً تین صورتیں  ہوتی ہیں  :

1۔ کمپنی  کے ملازمین  کسی کلینک  یا ہسپتال  سے علاج کراتے ہیں اور علاج   کے اخراجات  کلینک یا  ہسپتال  والے براہ راست  انشورنس  کمپنی  سے وصول کرتے ہیں ،ا س صورت میں اگر چہ محکمہ کو انشورنس کے معاملے  کا گناہ ہوگا  لیکن ملازم  کے لیے جائز ہے کہ وہ  علاج کرائے ، کیونکہ علاج کے خرچ  کی ذمہ داری  محکمے  پر ہے  ، پھر وہ  بلوں کی ادائیگی  کے لیے جو طریق  کارا ختیار  کرے اس کا ذمہ دار وہ خود  ہے ۔

2۔ دوسری  صورت  یہ ہے کہ کمپنی  کے ملازمین  کسی کلینک  یا  ہسپتال  سے علاج  کراتے ہیں اور کلینک یا  ہسپتال  والے علاج  کے اخراجات  ان ملازمین  کی کمپنی سے وصول کرتے ہیں  اور  پھر کمپنی اس علاج کے اخراجات  انشورنس  کمپنی سے وصول  کرلیتی ہے ، یہ صورت  بھی محکمے  کے لیے تو جائز نہیں ، مگر  ملازم کے لیے  اس طرح علاج کرانا  جائز ہے ، لما مر ۔

3۔ تیسری صورت  یہ ہے کہ ملازم کلینک یا ہسپتال  کی فیس خود ادا کرے  لیکن محکمے  نےا سے پابند  کردیاہو کہ وہ بل کی رقم خود جاکر  انشورنس کمپنی سے وصول  کرے اس صورت  میں چونکہ ملازم  کو انشورنس کمپنی  سے رقم مل رہی ہے  جس کا زیادہ تر  روپیہ حرام  ہے ،ا س لیے  ملازم  کے لیے اس کا لینا  جائز نہیں،  البتہ اگر ملازم کو یہ  معلوم   ہوسکے کہ اس کے محکمے  نےا نشورنس  کمپنی کو جتنا پریمیم ادا کیاہے،ا بھی تک  اتنی رقم اس کے ملازمین  نے وصول  نہیں کی تو جتنا پریمیم انشورنس کمپنی کے پاس باقی ہو صرف اس  حد تک  رقم وصول  کرنا جائز ہوگا ۔( دارالافتاء دارالعلوم)

“لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشا ھدیہ وقال ھم سواء۔(مسلم شریف، المساقاۃ، باب لعن آکل الربا ومؤکلہ، النسخۃ الہندیۃ 27/2)، 

“وَسُمِّيَ الْقِمَارُ قِمَارًا؛ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُقَامِرَيْنِ مِمَّنْ يَجُوزُ أَنْ يَذْهَبَ مَالُهُ إلَى صَاحِبِهِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَفِيدَ مَالَ صَاحِبِهِ وَهُوَ حَرَامٌ بِالنَّصِّ”. (فتاوی شامی،6 / 403، کتاب الحظر والاباحة، ط: سعید)

🔸و اللہ سبحانہ اعلم🔸

قمری تاریخ: 9 ذوالحجہ 1441ھ

عیسوی تاریخ: 31 جولائی 2020

اپنا تبصرہ بھیجیں