انکم ٹیکس سے بچنے کے لئے کوٹھی اگر بیوی کے نام کردی تو بیوی کی نہیں ہوجاتی

فتویٰ نمبر:396

سوال:جناب عرض یہ ہے کہ میں اور میرے بھائی نے ۱۹۶۲ء؁میں اپنے مشترکہ کاروبار کے پیسے سے پلاٹ خریدا اور کوٹھی بنوائی مگر کسی مصلحت کے تحت کوٹھی اپنی اور اپنے بھائی کی بیوی کے نام کردی ۔

کوٹھی کے بننے کے بعد بھی اس کے خرچے ہم خود ہی کرتے رہے اس کا پراپرٹی ٹیکس اور دوسرے ٹیکس،بجلی ،گیس اور ٹیلیفون کے بل ہم خود ہی ادا کرتے رہے  ہیں ، کوٹھی کو بنوانے اور پلاٹ خریدنے کے سلسلے میں ہم نے بڑی دوڑدھوپ اور محنت کی ہے ۔

عرض یہ ہے کہ میرے بھائی جن کی اس کوٹھی میں شراکت ہے ان کا انتقال ہو گیا ہے ،ان کی کوئی اولاد بھی نہیں ہے ، کچھ عرصہ بعد ان کی بیوی کا بھی انتقال ہوگیا ، میرے بھائی کی بیوی کے چار بھائی ہیں جو کوٹھی میں انکا نام ہونے کی وجہ سے کوٹھی کے آدھے حصے کے وارث ہونے کا دعوی کر رہے ہیں ، ان کے بھائیوں نے اس کوٹھی پر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا ہے اور نہ کوئی محنت کی ہے اور بھائی کی بیوی کا اپنا کوئی ذریعہ ِٔ معاش نہیں تھا جس سے وہ کوٹھی پر کوئی بھی خرچہ کر سکی ہوں ۔

واضح رہے کہ میری بیوی اور بھائی کی بیوی کو اپنی زندگی میں کوٹھی بیچنے یا کسی اور کے نام منتقل کرنے کا حق نہیں دیا گیا ، کوٹھی مصلحۃ ً بیویوں کے نام کی گئی تھی ، ملکیت کا حق میرا اور میرے بھائی کا تھا ، میری بیوی حیات ہے اور اس بات کی گواہ ہے ۔

پوچھنا یہ ہے کہ آدھی کوٹھی کے وارث میرے بھائی کے ورثہ ہیں جو مجھ سمیت تین بھائی اور ایک بہن ہے یا بیوی کے ورثہ جو چار بھائی ہیں ؟

                                                                        سائل:عبداللہ ۔ بلاک ۶۔ پی ای سی ایچ ایس ۔ کراچی

تنقیح

 [۱]کیا بھائیوں نے اپنی بیویوں کے نام سے یہ پلاٹ خریدا تھا یا کوٹھی بن جانے کے بعد کوٹھی ان کے نام کی تھی؟

[۲]اگر کوٹھی بیوی کے نام کی گئی تھی تو اس کی کیا صورت ہوئی تھی ؟ کیا ان کے نام کرتے ہوئے حصوں کا تعین کرکے ان کے نام کیا گیا یا مشترکہ جگہ پر دو نام ڈالے گئے تھے ؟

جواب ِتنقیح

۱   کوٹھی بننے کے بعد مصلحۃ ً  بیویوں کے نام کی تھی ۔

۲   کاروبار مشترکہ،بھائیوں کے نام تھا اس لئے کوٹھی انکم ٹیکس کی مصلحت کی وجہ سے بیویوں کے نام کی تھی ، مشترکہ جگہ پر دو نام ڈال دیئے گئے  تھے ، حصوں کا تعین نہیں کیا گیا تھا ۔

 الجواب حامدا   ومصلیا

            صورتِ مسؤلہ میں سائل نے جو وضاحت کی ہے کہ “یہ کوٹھی انکم ٹیکس سے بچنے کے لئے بیویوں کے نام کی گئی تھی “اس کی روشنی میں تو یہ کوٹھی بیویوں کے صرف نام کردینے سے ان کی ملک نہیں ہوئی  بلکہ ان کے شوہر ہی کی ملک میں رہی ۔(۱)

مزید یہ کہ جب یہ کوٹھی شروع میں مشترکہ تھی اور اسی حالت میں بیویوں کے نام کی گئی ، ہر عورت کا حصہ الگ الگ کر کے نام نہیں کیا گیا تو یہ مشاع اور مشترکہ چیز کا ہبہ ہوا اور مشترکہ چیز کا ہبہ کرنا صحیح نہیں ، اس طرح ہبہ کرنے سے ہبہ نہیں ہوتا(۲) ، اس صورت میں یہ پوری کوٹھی دونوں بھائیوں کی ملک میں  رہی اور جوبھائی انتقال کر چکے ہیں آدھی کوٹھی ان کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگی ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 688):

شَرَائِطُ صِحَّتِهَا (فِي الْمَوْهُوبِ أَنْ يَكُونَ مَقْبُوضًا غَيْرَ مَشَاعٍ مُمَيَّزًا غَيْرَ مَشْغُولٍ).

نیز اب جبکہ مرحوم بھائی کی بیوہ بھی انتقال کر چکی ہیں لہٰذا ان کے کل ترکہ کا (بشمول اس آدھی کوٹھی کے)ایک چوتھائی حصہ بیوہ کے شرعی ورثاء جو کہ اس کے چار بھائی ہیں ان کے حصہ میں آئے گا ۔۔۔فقط

الجواب صحیح

سعید احمد

الجواب صحیح

محمد عبد المجید دین پوری عفی عنہ

اپنا تبصرہ بھیجیں