کیا ایک ملحد “اسلامی جمہوریہ پاکستان” کا وفادار ہوسکتا ہے؟
یہ قطعی ناممکن ہے کہ پاکستان کے سولہ کروڑ عوام راتوں رات “لبرل یا دہریے ” بن جائیں اگر کوئی یہ سوچ رکھتا ہے کہ وہ چند اینکرز یا فیس بک کے چند پیجز یا کچھ زرخرید کالم نویسوں یا چند سیاستدانوں کے بل بوتے پر پورے ملک میں اسلام دشمنی کا بیج بو سکتا ہے تو یہ ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔
وجہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام میں مذہب اتنی شدت سے راسخ ہے کہ بعض اوقات خود مذہبی علما بھی اپنے عوام کی شدت اور مذہبی حالت دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں۔
عوام کے ذہنوں میں جو کچھ غلط صحیح اسلام موجود ہے وہ اسے دانتوں سے پکڑے ہوئے ہیں چاہے وہ نقلی پیروں کے ہاتھوں عقیدت سے لٹتے رہیں یا آتش فشاں خطیبوں کے جملوں سے اپنے ذہنوں میں تعصب کی چنگاریاں بھر کرفریق مخالف سے نفرت پر مجبور ہوتے رہیں، وہ یہ سب گوارا کرلیتے ہیں لیکن اپنے ذہنوں میں موجود اسلام پر کوئی کمپرومائز کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔(اگر کوئی “ملحد مجاہد” ان ساری چیزوں کو جہالت سمجھ کراسے الحاد کی روشنی سے زائل کرنے کا سوچتا ہے اور جدید ترین طریقے بھی بروئے کار لاتا ہے تو اسے کم ازکم دوتین سو سال لگاتار محنت کرنی پڑے گی تب جاکر سولہ کروڑ عوام جو شاید دوتین سو سال بعد اربوں کی تعداد میں ہوں اپنے عقیدے بدلنے کے بارے میں تیار ہوں)
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب وہ معمولی معمولی عقیدوں کو ترک نہیں کرتے تو وہ سب سے بنیادی عقیدہ جس پر تمام عقیدوں کی اساس ہے کیسےترک کر سکتے ہیں کہ “اللہ کوئی نہیں”
پاکستان کی بنیادوں میں اسلام ہے۔
اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ اقوام عالم کی نظر میں پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور پاکستانی عوام کو اس پر فخر ہے۔ لبرل ہزار بار شور مچاتے رہیں کہ نظریہ پاکستان غلط تھا، دوقومی نظریہ غلط تھا یا قائد اعظم خود لبرل تھے، بہرحال پاکستان سے وفاداری کی پہلی سیڑھی ہی اسلام ہے۔کیونکہ اسلام بذات خود حب الوطنی کا سبق دیتا ہے۔
ایک ملحد جب فیس بک سے لاگ آؤٹ ہو کرگھر سے باہر نکلتا ہے تو اسے قدم قدم پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام نظر آتے ہیں۔جن میں سے ایک کثیر تعداد نے داڑھیاں رکھی ہوتی ہیں، عورتوں نے نقاب یا برقعے پہنے ہوتے ہیں۔ مسجدوں سے اذانوں کی آوازیں آتی ہیں ، یہ سب دیکھ کر غصے کے مارے اس کے ماتھے پر تیوریاں چڑھ جاتی ہیں اور وہ ہزاردانہ تسبیح نکال کردل ہی دل میں “جہالت جہالت” کاورد شروع کردیتا ہے(“جاہل “اور” جہالت” ملحدین کے مرغوب ترین الفاظ ہیں) اسلامی تہواروں کے موقع پر ملحداپنے آپ کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں،رمضان مبارک میں چوبیس گھنٹے ان کا حلق خشک اور منہ سے جھاگ نکلتی رہتی ہے، مسلمان اتنی بھوک پیاس محسوس نہیں کرتے جتنی ملحد گرمی اور جلن محسوس کرتے ہیں۔
ان سارے عوامل کے پیش نظر ملحدین چاہتے ہیں کہ پاکستان سے اسلام کو دیس نکالا دیا جائے، یہاں بھی کمال اتاترک ٹائپ کا انقلاب لایا جائےلیکن اپنی مسلسل کوشش اور ہر محاذ پر منہ کی کھانے کے بعد وہ براہ راست پاکستان دشمنی پر اتر آتے ہیں۔اور اس دشمنی کا اظہار وہ مختلف طریقوں سے کرتے ہیں
“انڈیا سے الگ ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ آج کم ازکم ہم سیکولر تو ہوتے”
“اسرائیل کو نہ مان کر پاکستان عالمی برادری میں بدنام ہوچکا ہے”
“کھانے کو کچھ نہیں اور پاکستان بم پہ بم بناتا جارہا ہے”
“پاک فوج ہماری معیشت کھا گئی “
ملحدین چاہتے ہیں یہاں سیکولر انقلاب آئے اور اس کا جو طریقہ انہوں نے اپنایا ہوا ہے وہ واقعی قابل تشویش ہے۔اگر ملک میں بدامنی ، دنگا فساد ہوگا تو انقلاب کی راہ ہموار ہوگی اگر عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا ہوگی تو انقلاب کی راہ ہموار ہوگی، یقین کیجیے پاکستان میں بم دھماکے ہوں، خودکش بمبار خود کو اڑائیں تو سب سے زیادہ خوش ہونے والی قوم ملحدین کی ہوتی ہے، یہ ایک تیر سے دوشکار کرتے ہیں۔
فوج اور سیکورٹی اداروں کے خلاف بھرپور پروپیگنڈہ کرنے کا موقع ہاتھ آجاتا ہے، عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے درد بھری پوسٹوں کی بھرمار کرکے سارا ملبہ مولویوں اور اسلام پر ڈالنے کا گولڈن چانس مل جاتا ہےاور پاکستان تو کمزور ہوتا ہی ہے، اس کی خوشی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔
کیا ہم ملحدین کو محب وطن پاکستانی کہہ سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ یہ ٹولہ پاکستان اور اسلام کا بدترین دشمن ہے۔جو کھاتے پاکستان کا ہیں، سہولیات پاکستان کی استعمال کرتے ہیں اور پاکستانی اداروں میں ملازمتیں بھی کرتے ہیں لیکن جس پلیٹ سے کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں۔
ڈارون کے نظریے کے مطابق جو نسلیں غیر موافق حالات کا سامنا کریں وہ ختم ہوجاتی ہیں، پاکستان کا ماحول اور حالات الحاد کے لیے قطعی غیر موافق ہیں، اس لیے ملحدین کو چاہیئے کہ یا تو وہ موافق ماحول میں خود کو ڈھال کر پاکستان دشمنی ترک کردیں یا پھر اپنا بوریا بستر لپیٹ کر یہاں سے کوچ کرجائیں اور ایسے ملک میں رہیں جہاں کے حالات ان کے موافق ہوں۔
ثوبان تابش