مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ “الافاضات الیومیہ “میں فرماتے ہیں :
آج کل حالت یہ ہے کہ کسی سے اختلاف ہوا اور فورا اس پر کفر کا فتوی جاری کر دیا جائے گا۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ مولوی فضل حق صاحب مولانا شاہ اسماعیل شہید کے مد مقابل تھے۔ایک بار مولوی فضل حق صاحب تھانہ بھون تشریف لائے۔رئیس قاضی نجابت علی صاحب نے ان سے مولانا شاہ اسماعیل کے بارے میں پوچھا کہ ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔فرمایا میرے لیے یہی اعزاز کافی ہے کہ وہ میرے مقابل اور میرے معاصر ہیں۔پھر قاضی صاحب نے مولانا شاہ اسحاق صاحب کے بارے میں معلوم کیا ( وہ بھی ان کے مدمقابل تھے)فرمایا اس مجلس میں انسانوں کا ذکر ہو رہا ہے۔جب جبرئیل اور میکائیل کا ذکر ہوگا، اس وقت شاہ اسحاق صاحب کا ذکر کیجیے گا۔مخالفوں کے ساتھ عقیدت اور محبت کی یہ حالت تھی کہ اختلاف کے ساتھ ساتھ مخالفوں کے کمالات بھی پیش نظر رہتے تھے۔ (الافاضات، 8: 148)
ایک بار مولانا قاسم نانوتویؒ دھلی تشریف لے گئے۔مولانا احمد حسن امروہوی اور امیر شاہ خان بھی ساتھ تھے۔ امیر شاہ خان نے سوتے وقت مولوی احمد حسن سے کہا کہ صبح برج والی مسجد میں نماز پڑھیں گے، سنا ہے وہاں کے امام قرآن اچھا پڑھتے ہیں۔مولوی صاحب نے کہا وہ ہمارے مولانا قاسم کی تکفیر کرتا ہے، اس کے پیچھے کیسے نمازپڑھیں گے۔مولانا قاسم صاحب نے ان کی بات سن لی تو فرمایا۔احمد حسن میں تو سمجھتا تھا کہ تم لکھ پڑھ گئے مگر تم جاہل ہی رہے، دوسروں کو جاہل کہتے ہو۔کیا قاسم کی تکفیر سے وہ امامت کے قابل نہ رہا؟میں تو اس سے اس کی دین داری کا معتقد ہوگیا۔اس نے میری کوئی ایسی بات سنی ہو گی، جس کی وجہ سے میری تکفیر واجب تھی۔اگرچہ روایت غلط پہنچی ہو تو یہ راوی کا قصور ہے۔بہرحال اس کا سبب دینی حمیت ہی ہے۔اب میں خود اس کے پیچھے نماز پڑھوں گا۔غرض کہ مولانا نے صبح کی نماز اس کے پیچھے پڑھی۔ (الافاضات: 4: 294)
——
بہ حوالہ:محمد موسی بھٹو، ہمارے نفسی واجتماعی مسائل(انتخاب ملفوظات مولانا اشرف علی تھانویؒ)، (147- 148)
Load/Hide Comments