کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ھذا کے بارے میں:
ہمارے ادارے میں ہر سال اجتماعی قربانی کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں قرب کے بہت سے افراد حصہ لیتے ہیں۔
قربانی کے جانور لانے، ان کو چارہ ڈالنے، اور ان کو ذبح کروانے وغیرہ کے اخراجات وغیرہ کو شرکاء قربانی پر تقسیم کیا جاتا ہے، جب قربانی کے بعد گوشت کی تقسیم ہوتی ہے تو اکثر افرد اوجھڑی، چربی، سری وغیرہ چھوڑ جاتے ہیں، خود سری، پاؤں کو بنانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے، کیونکہ جانور 150، 200 کے قریب ہوتے ہیں۔
دریافت یہ کرنا ہے کہ ان چھوڑے ہوئے اعضاء وغیرہ کو کس مصرف میں استعمال کیا جائے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدًا ومصلیًا
اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنے والے قربانی کرنے میں شرکاء کے وکیل ہوتے ہیں، اور دوسری طرف شرکائے قربانی، قربانی کے جانور کے ہر ہر حصے میں شریک ہوتے ہیں لہذا: اگر منتظمین، شرکائے قربانی کو اوجھڑی، چربی، سری وغیرہ سے ان کا حصہ الگ کر کے دیتے ہیں، اور وہ اپنا حصہ چھوڑ جاتے ہیں تو یہ ان کی طرف سے اجازت شمار ہوگی، اور اگر وہ اس خیال سے چربی، اوجھڑی اور سری وغیرہ کو تو کوئی نہیں لیتا یا، لے گا نہیں اس لئے ان کو الگ ہی نہیں کرتے یا تقسیم ہی نہیں کرتے تو یہ درست نہیں، ایسی صورت میں شرکاء سے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ “ہم ان اشیاء کو طلبہ یا مدرسہ کی ضرورت میں استعمال کرلیں گے” تو ان کی اجازت سے طلباء مدرسہ یا مصارف مدرسہ یا مستحقین پر خرچ کرنا درست ہو جائے گا۔ شرکاء سے اجازت لینے کا آسان حل یہ ہے کہ قربانی کی رقم وصول کرنے کے لئے جو رسید کاٹی جاتی ہے اس کی پشت پر اس کی تصریح کردی جائےاور ان کو پڑھوا کر ان سے دستحط لے لیا جائے تو یہ ان کی طرف سے اجازت کے قائم مقام ہوجائے گا۔
1- ”و منها أن تجزئ فیها النیابة فیجوز للإنسان أن یضحي بنفسه وبغیره بإذنه لأنها قربة تتعلق بالمال فتجزئ فیها النیابة کأداء الزکاة وصدقة الفطر”.
(بدائع الصنائع، کتاب الأضحیة، فصل في کیفیة الوجوب: 4/200، رشیدیة)
2- ” ولو ضحی ببدنه عن نفسه وعرسه وأولاده لیس هذا في ظاهر الروایة وقال الحسن بن زیاد في کتاب الأضحیة إن کان أولاده صغارًا جاز عنه وعنهم جمیعًا في قول أبي حنفیة وأبي یوسف رحمهما الله، وإن کانوا کبارًا إن فعل بإمرهم جاز عن الکل في قول أبي حنفیة وأبي یوسف رحمهما الله إن فعل بغیر أمرهم أو بغیر أمر بعضهم لا تجوز عنه ولا عنهم”.
(الفتاوی العالمکیریة، کتاب الأضحیة، الباب السابع: 5/302، رشیدیة)
3- ”قال: وسألت أبا یوسف رحمه الله عن البقرة إذا ذبحها سبعة في الأضحیة أیقتسمون لحمها جزافا أو وزنا؟ قال:بل وزنا، قال: قلت: فان اقتسموها مجازفة، وحلل بعضهم بعضًا قال: أکره ذلك۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
أما عدم جواز القسمة مجازفة فلأن فیها معنی التملیك واللحم من الأموال الربویة فلا یجوز تملیکه مجازفة کسائر الأموال الربویة”.
(بدائع الصنائع، کتاب الأضحیة، کیفیة الوجوب: 4/201 ،202 رشیدیة)
4- (ویقسم اللحم وزنا أو جزافا إلا إذا ضم معه من الأکارع او الجلد) صرفا للجنس لخلاف جنسه”.
(الدر المختار، کتاب الأضحیة: 9/527، دار المعرفة)
5- ” ولا یحل بیع شحمها وأطرافها ورأسها وصوفها ووبرها وشعرها ولبنها الذي یحلبه منها بعد ذبحها بشئ لا یمکن الإنتفاع به إلا باستهلاك عینه من الدراهم والدنانیر والمأکولات والمشروبات إلا أن یعطي أجر الجزار والذابح منها، فإن باع شیئا من ذلك بما ذکرنا نفذ عند أبي حنیفة ومحمد رحمهما الله وعند أبي یوسف رحمه الله لا ینفذ ویتصدق بثمنه”.
(الفتاوی العالمکیریة، کتاب الأضحیة، الباب السادس: 5/301، رشیدیة)
6- (بدائع الصنائع، کتاب الأضحیة، بیان ما یستحب قبل التضحیة: 4/220، رشیدیة) فقط.
والله أعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :