سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ آجکل جو مختلف رفاعی ادارے ٹرسٹ کا کام کررہے ہیں اور ان لوگوں سے قربانی کی رقم لیکر ان کی جانب سے اجتماعی قربانی کا نظم کرتے ہیں ۔ بعض اوقات اس سے کچھ رقم بچ جاتی ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ آیا یہ رقم جسے لینے والوں کو والی کرنا ضروری ہے یا ان سے رقم لیتے وقت صراحتا اجازت لینی ضروری ہے کہ اگر رقم لیتے و بچ گئی جو وہ دیگر مصارف میں خرچ کردی جائیگی یا اس کی اجازت کی بھی ضرورت ہیں ؟
فتویٰ نمبر:65
جواب : اجتماعی قربانی کی دو صورتیں ہیں :
ایک صورت تو یہ کہ فی حصہ ایک رقم متعین کردی جائے کہ مثلا فی حصہ 32.00/= روپے لیں گے اور کمی بیشی ہماری ہوگی اب جانور جتنے کا بھی آئے ، سات حصوں کی مجموعی قیمت سے کم کا ہو یا زیادہ کا، فرق کا حساب برابر نہیں کی جائے گا ۔
دوسری صورت یہ کہ ایک رقم متعین کر کے پیسے وصؤل کر لیے جائیں اور پھر قربانی کے بعد تمام اخراجات کو ہر ایک شریک پر اس حصہ کے برابر تقسیم کردیاجائے ، جو کچھ کمی بیشی ہو اس کا حساب ہر حصہ دار سے برابر کرلیاجائے ۔
قربانی کی یہ دونوں صؤرتیں جائز ہیں اور شرعاً ان میں کوئی قباحت نہیں۔ البتہ پہلی صورت میں اجتماعی قربانی کی بچی ہوئی رقم حصہ لینے والوں کو واپس کرنا ضروری نہیں۔ جبکہ دوسری صورت میں بچی ہوئی رقم حصہ لینے والوں کو واپس کرنا ضروری ہے ، ان کی اجازت کے بغیر وہ رقم اجتماعی قربانی کا نظم کرنے والوں کے لیے خود رکھنا یا دیگر مصارف میں خرچ کرنا جائز نہیں لہذا اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ حصے کے پیسے لیتے وقت ہی ان سے اجازت لے لی جائے ، ورنہ بعد میں اجازت لینا لازم ہے۔ نیز اس صورت میں اگر اجتماعی قربانی کرنے والے ، قربانی کرنے کے عوض کے طور پر کچھ لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں ، لیکن اجرت کی رقم ابتدا ہی سے متعین کرنا ضروری ہے ( کذا فی فتاوی رحیمیہ :10/145 )
فی الھدایۃ : ” کل عقد یضیفہ الوکیل الی نفسہ ۔ کالبیع والاجارۃ ، فحقوقۃ تتعلق بالوکیل ۔۔۔ یسلم المبیع ، ویقبض الثمن ، ویطلب بالثمن اذا اشتری ، ویقبض المبیع ۔” ( الھدایۃ علی فتح القدیر :7/15 دارحیاء )
وفیہ : ‘واذا کلہ بشراء عشرۃ ارطال لحم بدرھم ۔فاشتری عشرین رطلا بدرھم من لحم یباع منہ عشرۃ ارطال بدرھم ، لزم الموکل منہ عشر ۃ بنصف درھم عند ابی حنیفۃ ۔ ” ( ایضا :7/38)