سوال: کیا عدت میں بیٹھی خاتون سے نامحرم مرد فون پر بات کرسکتا ہے؟
سائل : محمد عمیر
الجواب حامدا ومصلیا
بلاضرورت نامحرم سے بات کرنا عدت کے علاوہ بھی شرعا درست نہیں ۔اگرضرورت ہو تو بہتر صورت یہ ہے کہ گھر میں کسی مردسے بات کرکے عورت تک پیغام پہنچادیاجائے ۔اگر کوئی مرد نہ ہو یا متعلقہ خاتون سےہی بات کرنا مطلوب ہو تو ضرورت شدیدہ ہونے کی صورت میں بقدر ضرورت بات کرنے کی گنجائش ہے۔تاہم عورت کو چاہیے بقدر ضرورت بات کرے ،آواز میں لچک اور نرمی نہ لائے جس سے دوسرے آدمی کو عورت کی طرف میلان ہو بلکہ روکھے پن کے ساتھ بات کرے۔
وفی کلام الرب سبحانہ وتعالی: (الاحزاب:۳۲)
فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض و قلن قولا معروفا
ترجمہ: (آسان ترجمہ از مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ)
لہذا تم نزاکت کے ساتھ بات مت کیا کرو کبھی کوئی ایسا شخص بیجا لالچ کرنے لگے جس کے دل میں روگ ہوتا ہے۔اور بات وہ کہو جو بھلائی والی ہو۔
وفی رد المحتار: کتاب الصلاۃ،مطلب فی ستر العورۃ ۲/۹۷ رشیدیہ
صوت المراءۃ عورۃ انا نرید بذلک کلامھا لان ذلک لیس بصحیح۔ فانا نجیز الکلام مع النساء للاجانب ومجاورتھن عند الحاجۃ الی ذلک ولا نجیزلھن رفع اصواتھن ولا تمطیطھا ولا تلیینھا وتقطیعھا لما فی ذلک من استمالۃ الرجال الیھن و تحریک الشھوات منھم
وفیہ ایضا : کتاب الحظر والاباحۃ۹/۵۳۰ رشیدیہ
ولا یکلم الاجنبیۃ الا عجوزا
وفی احکام القران للتھانویؒ:۳/۴۸۳ ادارۃ القران
والحق الحقیق فی ارباب التحقیق ان صوت المراءۃ لیس بعورۃ فی نفسہ الا انہ قد یکون سببا للفتنۃ۔فکان من القسم الثانی من سد الذرائع ۔ فدار حکمہ علی الفتنۃ و عدمھا ۔ فحیث خیفت الفتنۃ حرام ابدائہ وحیث لا فلا ۔ کیف وقد حرم اللہ سبحانہ وتعالی اظھار صوت الخلخال و امثالہ فقال ولا یضربن بارجلھن لمظنۃ الفتنۃ ۔ فکیف یجوز اظھار صوت نفسھا مطلقا
واللہ اعلم بالصواب
محمد عثمان غفرلہ ولوالدیہ
نور محمد اسلامک ریسرچ سینٹر
۱۸/۳/۱۴۴۱
2019/11/16