مذاہب کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب تک وہ اپنے سلف اور قدیم نیک بزرگوں کے اصولوں پر گامزن رہے، خود برد اور تحریف و تنسیخ سے پاک رہے۔ مذاہب محرف اور مسخ تبھی ہوئے جب بعد کے لوگوں نے اس کے اصول و مسلمات سے انحراف کیا۔ جو امانت و دیانت قدیم آباء میں ہوتی ہے وہ بعد کے لوگوں میں باوجود قابلیت کے نہیں ہوسکتی۔ اس لیے بھی اصولوں پر سمجھوتہ قابل برداشت نہیں ہوتا۔ دین محمدی میں قرآن، سنت، اجماع اور شرعی قیاس سلف کے اصولوں میں سے ہیں۔ ان پر ہم بعد والے سمجھوتے کر بیٹھے تو دین اپنی اصل شناخت کھو بیٹھے گا۔ قرآن و سنت اور تمام تر مسلمات پر از سر نو بحث و تحقیق کا دروازہ کھل جائے گا اور دیانت و ثقاہت کی کمی اور علمیت کا فقدان ایسے ایسے گل کھلائیں گے کہ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔
گزشتہ چند عشروں سے مسلمانوں میں چند تحریکات نے سر اٹھایا ہے۔ یہ تحریکات عموماً مالدار طبقے میں پھلی پھولیں۔کسی کا سلوگن انکار حدیث ہے، کسی کا انکار اجماع اور کسی کا تقلید بیزاری ان سبھی تحریکات میں قدرے مشترک چیز انکار اجماع ہے۔ اجماع کا انکار پہلا قدم یا یوں کہیے کہ چور دروازہ ہے جس میں نقب زنی بہت سے قیمتی چیزوں کے ضیاع کا باعث بن سکتا ہے۔ تقلید کا جواز متفقہ مسئلہ ہے۔ حجیت حدیث متفقہ مسئلہ ہے۔ مرتد کی سزا، شراب خوری کی سزا اور سنگساری کی سزا یہ سب اجماعی مسائل ہیں۔ اجماع کو جب اصول کی حیثیت سے تسلیم ہی نہیں کیا جائے گا تو ان سب مسلمات کا انکار سہل ہوجائے گا۔ پھر دین کو بازیچۂ اطفال بن کر رہ جانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ اجماع کے حوالے سے استدلال کے انداز میں کچھ معروضات پیش کر دی جائیں۔ منصف مزاج لوگ خود ہی سمجھ جائیں گے کہ حق کس کے ساتھ ہے اور کون زیادہ قابل اتباع ہے۔
عزیزم مولوی علی زر زید مجدہ کا میں شکر گزار ہوں جنہوں نے بندہ ناچیز کے کہنے پر اس حوالے سے اپنی تحقیق مرتب کی۔ درمیان میں کچھ حذف و ترمیم اور آخر میں اضافوں کے ساتھ ان کی یہ تحقیق قوم کے سامنے پیش کی جارہی ہے۔
’’اﷲ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے سامنے دو راستے رکھے ایک راستہ وہ ہے جسے صراط مستقیم کہتے ہیں دوسرا شیطان کا راستہ ہے۔ انسان کے ساتھ اس کا نفس اور انا بھی ہیں جو اس کو برائی کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ جس کو شیطان مزید تقویت دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اﷲ تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص فطرت پر پیدا کیا جو اس کو صراط مستقیم پر چلاتا ہے یہ اس کا ضمیر ہے۔ اس کو مزید تقویت دینے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے رسولوں کا سلسلہ جاری کیا۔ جو لوگ نفس و انا کی خواہشات کو سامنے رکھ کر شیطان کی راہ چلتے ہیں ان کی فطرت مسخ ہوتی رہتی ہے وہ نیکی سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور درجہ بدرجہ نیک لوگوں کی راہ سے ہٹ جاتے ہیں یہاں تک کہ احادیث کا انکار کرکے نبیوں اور رسولوں کا انکار بھی کر بیٹھتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ اپنی فطرت اور ضمیر پر رہ کر رسولوں کے احکامات کا اتباع کرتے ہیں ان میں حق کی قبولیت بڑھتی ہے یہاں تک کہ ان کو برائی سے طبعی نفرت ہوجاتی ہے اور قرآن و سنت میں غوروفکر کر کے حق کی تلاش میں نتیجہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ نتیجہ اگر قرآن و سنت میں صراحتاً موجود نہ ہو تو صحیح بھی ہوسکتاہے اور ممکن ہے غلط بھی ہو۔ لیکن جب تمام علماء و فقہاء قرآن و سنت میں غور کرکے ایک ہی نتیجہ نکالیں تو یہ بلا شبہ صحیح ہوگا۔ کیونکہ علماء و فقہا مختلف علاقوں اور مختلف طرز فکر رکھنے والے اشخاص ہیں۔ ان تمام تر علاقائی ماحولیاتی اور طرز فکر میں اختلاف کے باوجود جب سب مل کر ایک ہی بات اور نتیجہ پر متفق ہوگئے تو اس سے معلوم ہوا کہ یہی بات اسلام کے عین مطابق ہے۔ اس لیے کہ ان میں مشترک چیز صرف اسلام ہے اور اسلام ہی وہ راستہ ہے جس نے مختلف طبیعتوں اور علاقوں کے لوگوں کو آپس میں ایک بات پر متفق کیا۔
الحاصل: آپ ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی امت کے وہ تمام نیک صالح لوگ، جو قرآن و سنت سے شرعی احکامات نکالنے کا فن جانتے ہوں، کسی بھی زمانے میں کسی شرعی مسئلے پر اگر اتفاق کر لیں تو وہی مسئلہ صحیح اور حق ہوگا اس کو ماننا اور اس پر عمل کرنا لازمی ہوگا اور اس کی مخالفت ناجائز اور گمراہی ہوگی۔
یہ اجماع کے حوالے سے ایک منطقی دلیل (Logic)تھی اب آتے ہیں منقول و ماثور دلائل کی طرف۔
حجیت اجماع قرآن سے :
۱۔ترجمہ: اور جو کوئی مخالفت کرے رسول کی جب کہ کھل چکی اس پر سیدھی راہ اور چلے مسلمانوں کے راستے کے خلاف تو ہم حوالے کریں گے اس کو وہی طرف جو اس نے اختیار کیا اور ڈالیں گے ہم اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بری جگہ پہنچا۔ (سورۃ النساء ۱۱۵)
اس آیت میں مسلمانوں کے راستے کے خلاف چلنے کو رسول اﷲ ﷺکی مخالفت کے ساتھ ذکر کرکے دونوں پر سخت وعید کا تذکر کیا گیا ہے۔ حق تعالیٰ نے دونوں قسم کے لوگوں پر جہنم کو واجب کیا۔ معلوم ہوا جس طرح نبی کریم ﷺکی مخالفت حرام اور جہنم کی طرف لے جانے والی ہے اسی طرح مسلمانوں کی متفقہ راہ سے ہٹ کر جدا راستہ اختیار کرنا بھی جہنم کی طرف لے جانے والا عمل ہے۔
مشہور محدث اور فقیہ امام محمد بن ادریس الشافعی اس آیت کو اجماع کے سند شرعی ہونے کے حوالے سے پیش کیا کرتے تھے۔
۲۔ترجمہ: ’’(مسلمانو!) تم ہی وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی، تم نیکی کی تلقین کرتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
(آل عمران ۱۱۰)
اس آیت مبارکہ میں واضح کیا گیا ہے کہ نیکی کی تلقین، برائی سے منع کرنا اور اﷲ تعالیٰ پر حقیقی ایمان یہ وہ صفات ہیں جو امت محمدیہ میں پائی جاتی ہیں۔ دوسرے مذاہب تبلیغی نہیں تھے۔ صرف امت محمدیہ ایک تبلیغی اور اشاعتی مذہب ہے۔ کسی اور امت کے لیے جہاد کے ایسے عمومی احکام نہیں دیے گئے جیسے اس امت کو دیے گئے۔ اس امت میں جو عظیم نبی مبعوث کیے گئے جو قرآن دیا گیا ، جو قبلہ دیا گیا، صحابہ کی جو جماعت اس امت کو دی گئی اور جس طرح کے معتدل اورمتوازن احکام و فروع دیے گئے یہ سب اسی امت کے امتیاز اور خاص شعار ہیں اور انہیں سب امتیازات اور نسبتوں کی وجہ سے یہ امت خیر امہ قرار پانے کی حقیقی حق دار ہے۔
آیت مبارکہ کی اس تشریح و تفسیر سے اندازہ ہوگیا کہ امت محمدیہ کو من حیث الجموع خیر امہ قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے یہ امت جب من حیث الجموع کسی مسئلہ پر اتفاق کر گی تو وہ بھی خیر ہی ہوگا۔
امام ابوبکر جصاص رازی کی تصنیف احکام القرآن یہاں دیکھ لی جائے۔ اس میں انہوں نے اس آیت سے اجماع کی حجیت پر استدلال کیا ہے۔
۳۔ترجمہ:’’ اور (مسلمانو) اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا ہے تاکہ تم دوسرے لوگوں پر گواہ بنو۔‘‘
(سورۃ بقرۃ آیت ۱۴۳)
وسط اور معتدل کا معنیٰ منصف اور پسندیدہ ہے۔ جیسا کہ سورۃ القلم میں ہے (قال أوسطھم) (یعنی ان میں جو منصف ہے اس نے کہا) چنانچہ امۃ وسطاً کا مطلب یہ ہے کہ یہ امت کسی بھی زمانے میں جب کسی بات پر متفق ہو تو وہی بات عنداﷲ انصاف پر مبنی اور پسندیدہ ہوگی کیونکہ اگر سب کا کسی غلطی پر اتفاق تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ کہنے کے کوئی معنی نہیں رہتے کہ یہ امت وسط اور عدل ہے۔
امام ابوبکر جصاص نے بھی اس آیت سے اجماع کی حجیت پر استدلال کیا ہے۔
۴۔ترجمہ:’’ پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اگر تم واقعی اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اسے اﷲ اور رسول کے حوالے کرو۔‘‘
(سورۃ النساء آیت نمبر ۵۹)
مسلمانوں میں اگر کسی معاملے پر اختلاف ہوجائے تو اس کا حکم قرآن نے یہ بتایا کہ اس کو کتاب اﷲ اور سنت رسولﷺکے حوالے کردو اور قرآن و سنت کے مطابق فیصلہ کرلو۔ لیکن اگر اختلاف نہ ہو بلکہ تمام مسلمان متفق ہوجائیں تو اس صورت میں کتاب اﷲ اور سنت رسولﷺکی طرف رجوع کرنے سے قرآن خاموش ہے۔ معلوم ہوا مسلم امت کا کسی بات پر متفق ہونا اس بات پر عمل کرنے کے لیے کافی ہے۔ اگر کافی نہ ہوتا تو اس صورت میں بھی کتاب و سنت کی طرف رجوع کا حکم ہوتا۔
۵۔ ترجمہ: ’’ہم نے جن کو پیدا کیا ہے ان میں ایک امت ایسی ہے جو حق کے موافق ہدایت کرتے ہیں اور جب ان میں آپس میں کوئی جھگڑا پیش آئے تو اپنے جھگڑے کا فیصلہ بھی حق یعنی قانون الٰہی کے موافق کرتے ہیں۔ ‘‘
(الاعراف آیت ۱۸۱)
اس آیت میں بھی اﷲ تعالیٰ تمام اولاد آدم میں سے خاص اس امت کی اجتماعی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ امت ایسی ہے کہ حق کے موافق ہدایت کرتی ہے یعنی لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور حق یعنی قانون الٰہی کے موافق فیصلہ کرتی ہے۔ معلوم ہوا کہ ان کا متفقہ فیصلہ تو اعلیٰ درجہ کا حق ہے۔
تفیسر کبیر میں امام رازی نے بہت عمدہ طریقے سے اس آیت سے حجیت اجماع پر استدلال کیا ہے۔
۶۔ترجمہ: اور اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو۔
(آل عمران آیت ۱۰۳)
اس آیت میں ’’اﷲ کی رسی‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اس پر بحث کی جا سکتی ہے۔ لیکن قرآن کریم علوم و معانی کا بحر ذخار ہے۔ ’’اﷲ کی رسی‘‘ سے ’’جماعت اہل السنۃ‘‘ مراد لیا جائے تو اس کی بھی اس آیت میں مکمل گنجائش موجود ہے۔ اس صورت میں آیت کی تفسیر بے غبار ہے کہ جماعت اہل السنۃ کے موقف پر مضبوطی سے جمے رہو۔ ان کے نظریات پر کار بند رہو اور ان سے اختلاف نہ کرو! اس طرح آیت مبارکہ سے اہل السنۃ اور اجماع کی حجیت کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ اس موقع پر تفسیر کبیر کو دیکھ لیا جائے۔
اس کے علاوہ سورۂ حج کی آخری آیت بھی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ امت محمدیہ ایک عظیم قوم ہے اس کے لیے ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی اور مسلمین اس کا لقب تجویز کیا اور یہ کہ یہ امت اﷲ تعالیٰ کی چنی ہوئی اور منتخب ملت ہے۔
اندازہ لگائیں جس قوم و ملت کا یہ عالم ہو کہ وہ اﷲ کی منتخب کردہ ہو خدا نے جسے ابراہیمی ملت قرار دیا ہو اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام جن کا نام پہلے سے تجویز کر گئے ہوں ان کے اتفاق و اجماع کی کس قدر اہمیت اور اعلیٰ شان ہوگی!!!
ان تمام آیات سے اس بات کی تائید ہوگئی کہ کسی امر سے متعلق مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ حق اور حجت ہے اس کو ماننا لازمی ہے اور اس سے روگردانی کرنا انتہائی برا اور گمراہ کن عمل ہے۔
حجیت اجماع حدیث سے:
احادیث مبارکہ میں بھی اجماع کی حجیت اور سند ہونے کے حوالے سے کئی دلائل موجود ہیں۔ جن میں سے چند ایک پیش کیے جاتے ہیں:
۱۔ (ان اﷲ لا یجمع امتی او قال امۃ محمد ﷺ علی ضلالۃ)
(ترمذی، باب ماجاء فی لزوم الجماعۃ، کتاب الفتن عن رسول اﷲﷺ حدیث نمبر ۲۰۹۳)
ترجمہ: رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ میری امت کو یا (راوی نے کہا) کہ محمدﷺ کی امت کو ضلالت و گمراہی پر جمع نہیں کریں گے۔
۲۔ فما رأی المسلمون حسنا فھو عند اﷲ حسن و ما رأو اسئیاً فھو عند اﷲ سییءٌ
(مسند احمد، حدیث نمبر ۳۶۰۰)
ترجمہ: ’’جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جس چیز کو مسلمان برا سمجھیں وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بھی بری ہے۔ ‘‘
وضاحت: اس حدیث میں المسلمون سے مراد علماء امت ہیں نہ کہ عوام الناس۔
۳۔ (من فارق الجماعۃ شبرا فقد خلع ربقۃ الاسلام من عنقہ)
(مشکوۃ : ص ۳۱)
ترجمہ: جو شخص جماعت (امت مسلمہ کی متفقہ رائے) سے بالشت برابر جدا ہوا تو اس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے الگ کردی۔
۴۔ (من فارق الجماعۃ مات میتۃ جاھلیۃ)
ترجمہ: جو شخص جماعت سے الگ ہوجائے تو اس کی موت جاہلیت کے طرز پر ہوگی۔
ان سب احادیث میں قدر مشترکہ بات یہی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریتی اور اجتماعی رائے کو اسلام میں اہمیت اور بڑا مقام حاصل ہے اور جو اس اکثریتی رائے سے علیحدہ رائے اختیار کرتا ہے اس کے سوء خاتمہ اور گمراہی کا اندیشہ ہے۔ اعاذنا اﷲ منہ
دعوت فکر:
میری ناقص رائے میں موجودہ حالات کے اندر ان آیات و احادیث کا مصداق دو طرح کے لوگ ہیں: ایک وہ جو اجماع امت کو حجت اور سند شرعی تسلیم نہیں کرتے۔ چنانچہ وہ اجماع کا قلادہ اپنی گردن سے اتار کر بہت سے اجماعی اور قریب بہ اجماع مسائل میں اپنی منفردانہ سوچ کو امت پر لاگو کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ مسلمات سے انکار کا راستہ اختیار کرکے اسلام کو بالکل نئے لبادے میں پیش کرنے کی کوششیں کرتے ہیں ۔دوسرے وہ جو امت کے اجتماعی ضمیر کے خلاف دہشت گردی اور بغاوت و خروج کی راہ پر گامزن ہیں۔ امت اور علماء کی اکثریت ایک طرف ہے اور چند ایک چھوٹے چھوٹے گروہ دوسری طرف یہ چند ایک گروہ امت کے اجتماعی افکار اور رائے عامہ کو مسترد کرکے مسلم حکومتوں اور ان کے عوام کے خلاف ہتھیار اٹھائے رہتے اور فتوائے تکفیر داغتے رہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حق ان دونوں راہوں کے بر خلاف درمیانی راہ میں ہے۔ اعتدال اور میانہ روی جو اس امت کا امتیازی وصف ہے وہ افراط اور تفریط سے پاک اس واضح اور روشن راستے میں ہے جس پر امت چودہ سو سال سے چلی آرہی ہے۔