حضرت زبیربن العوّام رضی اللہ عنہ:تیسری قسط
تحریر :حضرت مولانا خلیق احمد مفتی صاحب
حضرت زبیربن العوامؓ عہدِنبوی کے بعد:
رسول اللہﷺکامبارک دورگذرجانے کے بعدخلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیقؓ کے دورمیں بھی حضرت زبیربن العوامؓ کووہی بلندترین مقام ومرتبہ حاصل رہااوراس معاشرے میں ان کی وہی قدرومنزلت برقراررہی۔خلیفۂ اول کے مشیرِ خاص اورانتہائی قریبی دوست کی حیثیت سے انہیں دیکھاجاتارہا ،ظاہرہے کہ ان دونوں جلیل القدرشخصیات میں بہت قدیم تعلق تھااورپرانی شناسائی تھی، حتیٰ کہ مکہ شہرمیں دینِ اسلام کے بالکل ابتدائی دورمیں خودحضرت ابوبکرصدیقؓ کی دعوت کےکے نتیجے میں ہی توحضرت زبیرؓ مسلمان ہوئے تھے۔
خلیفۂ دوم حضرت عمربن خطابؓ کے دورِخلافت میں بھی ان کی یہی حیثیت اورقدرومنزلت برقراررہی،حتیٰ کہ حضرت عمربن خطابؓ قاتلانہ حملے کے نتیجے میں جب شدیدزخمی ہوگئے،بچنے کی امیدکم تھی،تب اکابرِصحابہ میں سے متعددشخصیات نے یہ اصرارکیاتھاکہ ’’اے امیرالمؤمنین آپ اپناکوئی جانشین مقرر کردیجئے‘‘اس پر حضرت عمرؓنے جن چھ افرادکے نام گنواتے ہوئے یہ تاکیدکی تھی کہ یہی چھ افرادباہم مشاورت کے بعدآپس میں سے ہی کسی کومنصبِ خلافت کیلئے منتخب کرلیں، ان چھ افرادمیں حضرت زبیربن العوامؓ بھی شامل تھے۔
وفات
۳۵ھ میں باغیوں اورشرپسندوں نے جب خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفانؓ کے گھرکامحاصرہ کیا،اورپھرانہی باغیوں کے ہاتھوں حضرت عثمانؓ کی شہادت کاالمناک واقعہ پیش آیا،اورپھرعرصۂ درازتک اس المناک واقعے کے بھیانک نتائج واثرات مختلف فتنوں کی شکل میں مسلسل ظاہرہوتے رہے،اور ۳۶ھمیں بصرہ کے قریب دریائے فرات کے کنارے ایساہی ایک افسوسناک واقعہ پیش آیاجوکہ دراصل یقینا’’فتنۂ قتلِ عثمان‘‘ہی کالازمی نتیجہ تھا،اس افسوسناک واقعے (جوکہ تاریخ میں ’’جنگِ جمل‘‘کے نام سے معروف ہے)کے موقع پرجب حضرت زبیربن العوامؓ بھی وہاں موجودتھے، تب جنگ کے آغازسے قبل حضرت علی بن ابی طالبؓ (جوکہ اس وقت مسلمانوں کے خلیفۂ چہارم کی حیثیت سے فرمانروا اور امیرالمؤمنین تھے)کی نگاہ جب حضرت زبیربن العوامؓ پرپڑی تووہ ان کے قریب آئے اورسرگوشی کے اندازمیں ان سے کچھ بات چیت کی۔
حضرت علی بن ابی طالبؓ کی اس گفتگوسے حضرت زبیربن العوامؓ انتہائی متأثرہوئے ،اورفوری طورپروہاں سے چلے جانے کافیصلہ کیا،اوراس تمام معاملے سے مکمل علیحدگی اختیارکرلینے کااعلان کیاکہ جوایک بڑی غلط فہمی کے نتیجے میں پیداہوگیاتھا۔
جن فسادیوں، بدخواہوں، اورسازشی عناصرکی مسلسل ریشہ دوانیوں کی وجہ سے یہ فتنہ اس قدر خطرناک شکل اختیارکرگیاتھا،اوراس صورتِ حال پروہ انتہائی مسروروشاداں تھے، انہوں نے جب حضرت زبیربن العوامؓ جیسی اہم شخصیت کووہاں سے واپس لوٹتے ہوئے دیکھاتوانہیں اپنی تمام سازش خطرے میں نظرآنے لگی،اوران سے یہ منظر برداشت نہ ہوسکا،تب ان میں سے ابن جرموزنامی ایک شخص اپنے چندساتھیوں کے ہمراہ خفیہ طورپر ان کے تعاقب میں روانہ ہوگیا،حضرت زبیربن العوامؓ تنہااپنے گھوڑے پرسواراُس مقام سے جوکہ بصرہ شہرکے قریب تھا، بہت دوراپنی منزل یعنی مدینہ کی جانب روانہ ہوگئے،ابن جرموزاپنے ساتھیوں کے ہمراہ مسلسل تعاقب میں رہا،جبکہ اس دوران حضرت زبیربن العوامؓ کو اس چیزکااندازہ نہیں ہوسکاکہ کوئی دشمن ان کے تعاقب میں ہے۔آخر’’وادی السباع‘‘نامی ایک مقام پرجب یہ اپنے گھوڑے سے اترے اورنمازمیں مشغول ہوگئے تب ان دشمنوں نے موقع غنیمت جانا،اور عقب سے اچانک حملہ کردیا ،جس کے نتیجے میں یہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پرہی شہیدہوگئے۔
بصرہ کے قریب ایک بستی میں انہیں سپردِخاک کیاگیا،وہ بستی انہی کی طرف نسبت کی وجہ سے آج بھی ’’الزبیر‘‘کے نام سے معروف ہے۔ان کی تجہیزوتکفین کے موقع پرحضرت علی بن ابی طالبؓ بھی موجودتھے جواس موقع پرمسلسل ان کیلئے دعائے خیرکرتے رہے اورتحسین آمیزکلمات کے ساتھ ان کا ذکر ِخیر کرتے رہے۔
اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں حضرت زبیربن العوامؓ کے درجات بلندفرمائیں ، اورہمیں وہاں اپنے حبیبﷺ نیزتمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت ومعیت کے شرف سے نوازیں۔
عجیب اتفاق ہے کہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ اورحضرت زبیربن العوامؓ کے حالاتِ زندگی میں بڑی حدتک مماثلت پائی جاتی ہے، دونوں ’’السابقون الاولون‘‘میں سے تھے،دونوں ’’عشرہ مبشرہ‘‘میں سے تھے،دونوں ہم عمراورہم عصرتھے،دونوں حضرت ابوبکرصدیقؓ کے دامادتھے،دونوں’’اصحابِ شوریٰ‘‘ یعنی ان چھ جلیل القدرشخصیات میں شامل تھے جنہیں حضرت عمربن خطابؓ نے اپنے بعدخلافت کے منصب کیلئے منتخب فرمایاتھا،دونوں کی ایک ہی واقعے میں بصرہ کے قریب ایک ہی جیسے حالات میں شہادت ہوئی،حتیٰ کہ خودرسول اللہﷺنے ایک موقع پران دونوں کے بارے میں یہ ارشادفرمایاتھا: طَلحَۃ وَ الزُبَیر جَارَايَ فِي الجَنَّۃ ’’طلحہ اورزبیردونوں جنت میں میرے پڑوسی ہیں‘‘۔ (ترمذی)